سویڈن کی پہلی خاتون وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے چارج سنبھالنے کے چند ہی گھنٹے بعد ڈرامائی طور پر پارلیمنٹ میں بجٹ منظور کرانے میں ناکامی اور پھر دو جماعتوں کی مخلوط حکومت میں اپنے اتحادی کھو دینے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
اینڈرسن نے کہا کہ گرین پارٹی کی طرف سے دو جماعتی اتحاد کو چھوڑنے کے فیصلے نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے سپیکر کو بتایا تھا کہ وہ یک جماعتی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے دوبارہ وزیر اعظم بننے کی امید رکھتی ہیں۔
دوسری جانب گرین پارٹی نے کہا کہ وہ اتحادیوں کی جانب سے پیش کیا گیا بجٹ بل پارلیمنٹ سے مسترد ہونے کے بعد حکومت چھوڑ رہی ہے۔
اینڈرسن نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا: ’میرے لیے یہ (وزیر اعظم کا عہدہ) اعزاز کی بات ہے لیکن میں ایسی حکومت کی قیادت بھی نہیں کرنا چاہتی جہاں اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کی وجہ موجود ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر کوئی (اتحادی) جماعت حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے تو مخلوط حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی پارلیمانی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس (حکومت بنانے) کی دوبارہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا استعفیٰ سویڈن کی سیاست میں ایک ڈرامائی اور تاریخی دن میں ایک چونکا دینے والا موڑ تھا کیوں کہ کچھ گھنٹے قبل ہی سویڈش پارلیمنٹ نے اینڈرسن کو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ حال ہی میں حکمراں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ بنی تھیں۔
بجٹ پر ووٹنگ سے پہلے اینڈرسن نے کہا تھا کہ اگر وہ ہار گئیں تو وہ بطور وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گی لیکن پھر انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔
اینڈرسن نے ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’میری رائے ہے کہ یہ (بجٹ کی ناکامی) مجموعی طور پر ایک ایسی صورت حال نہیں جس کے بعد میں بطور وزیر اعظم کام نہ کر سکوں۔‘
ان کا بطور وزیر اعظم منتخب ہونا سویڈن کے لیے ایک قابل ذکر سنگ میل تھا جو صنفی مساوات کے حوالے سے طویل عرصے سے یورپ کی قیادت کر رہا ہے تاہم اس سب کے باوجود اس سکینڈینیوین ملک میں ابھی تک اعلیٰ سیاسی عہدے پر کوئی خاتون فائز نہیں ہے۔
پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اینڈرسن کی حمایت کرنے والی ایک آزاد رکن امینہ کاکابویہ نے کہا کہ سویڈن اس وقت آفاقی اور مساوی (مرد و خواتین دونوں کو) حق رائے دہی متعارف کرانے کے فیصلے کی 100 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگر خواتین کو صرف ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے لیکن وہ کبھی بھی اعلیٰ ترین عہدے کے لیے منتخب نہیں ہوتیں تو اس سے ہماری جمہوریت مکمل نہیں ہے۔ اس فیصلے (پہلی بار خاتون وزیر اعظم کی تعیناتی) کی کچھ علامتی اہمیت بھی ہے۔‘
اینڈرسن نے دو دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے سویڈن کی سابقہ مرکزی اور بائیں بازو کی اقلیتی حکومت کو بھی سہارا دیا تھا۔ ان میں لیفٹ پارٹی اور سینٹر پارٹی شامل تھیں۔
اینڈرسن کے مستعفی ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے سپیکر اب نئی حکومت کی تشکیل کے عمل کے اگلے مرحلے کا فیصلہ کریں گے۔
© The Independent