آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران کی مذاکراتی ٹیم نے اتوار کو چینی اور روسی سفارت کاروں سے دو طرفہ اور سہ فریقی ملاقاتیں کی ہیں۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی ’ایسنا‘ کی رپورٹ کے مطابق ’علی باقری کنی کی قیادت میں ملاقاتیں ایک اسے وقت ہوئی ہیں جب ویانا میں 2015 کے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پائے گئے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہونے جا رہا ہے۔،
ایرانی سفارت کار محمد رضا ضیبی نے ایسنا کو بتایا: ’ایرانی ٹیم ہفتے کے روز ویانا پہنچی ہے جس نے اتوار کو روسی اور چینی مذاکراتی ٹیموں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر اینریک مورا کے ساتھ ماہرین کی سطح پر ملاقاتیں کی ہیں۔‘
جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہونے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کی طرف سے معطل کیے گئے بالواسطہ مذاکرات پانچ ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوں گے جن میں بڑی طاقتیں بھی شرکت کریں گی۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت کو امریکہ کے پاس ایران کو ایٹم بم کی تیاری سے روکنے کے محدود آپشنز ہوں گے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں عالمی ایٹمی معاہدے سے الگ ہو کر ایران پر وہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں جو معاہدے کی شرائط کے تحت اٹھائی جا چکی تھیں۔
موجوہ امریکی صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کی طرف سے معاہدے کی اصل شرائط پر واپسی کی صورت میں معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو کہا تھا کہ جلد کسی سمجھوتے پر پہنچنے اور اس پر عمل درآمد کی گنجائش موجود ہے تاہم ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے راب میلی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے تہران کا رویہ ایسا نہیں کہ اچھے نتائج کی توقع کی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں امریکہ پر جلد واضح ہو جائے گا کہ آیا ایران صرف مزید وقت چاہتا ہے تاکہ اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورت میں امریکہ بے کار نہیں بیٹھے گا۔ ’ہم دوسرے اقدامات پر غورکریں گے۔ سفارتی یا دوسرے تاکہ ایران کی ایٹمی خواہشات کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میلی نے ہفتے کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت میں بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ اگر ایران نے ان مذاکرات کو اپنا ایٹمی پروگرام تیز کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا تو امریکہ اور اس کے شراکت دار اس پر دباؤ ڈالیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے رواں ماہ کے وسط میں اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے خبردار کیا تھا کہ ایران اپنے جوہری ذخیرے میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
آئی اے ای اے نے 17 نومبر کو اپنی خفیہ سہ ماہی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کے ذخیرے میں مزید اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں ایجنسی نے رکن ممالک کو بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق ایران کے پاس یورینیم کا 17.7 کلوگرام کا ایسا ذخیرہ ہے جس کو 60 فیصد تک افزودہ کیا گیا ہے اور رواں سال اگست کے بعد اس میں تقریباً آٹھ کلو گرام کا اضافہ ہوا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
ویانا میں قائم ایجنسی نے رکن ممالک کو مزید بتایا کہ وہ ابھی تک ایران کے افزودہ یورینیم کے ٹھیک ٹھیک ذخیرے کی تصدیق نہیں کر پا رہی ہے کیونکہ تہران نے اس سال کے آغاز میں ہی اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
آئی اے ای اے فروری کے بعد سے ایرانی جوہری تنصیبات، آن لائن افزودگی مانیٹر اور الیکٹرانک سیل کی نگرانی کی فوٹیج تک رسائی حاصل کرنے سے بھی قاصر ہے۔