’ پرل ہاربر کے مناظر آج بھی پیچھا کرتے ہیں‘:101 سالہ فوجی

پرل ہاربر کے زندہ بچ جانے والے اور دوسری عالمی جنگ کے سابق امریکی فوجی ہوائی میں سات دسمبر 1941 کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

پرل ہاربر سے بچ جانے والے اور دوسری عالمی جنگ میں شرکت کرنے والے 101 سالہ ڈیوڈ رسل 22 نومبر 2021 کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ناشتہ کر رہے ہیں (تصویر: اے پی)

جب جاپانی بم پرل ہاربر پر گرنے لگے تو امریکی بحریہ کے سی مین فرسٹ کلاس ڈیوڈرسل نے پہلے طیارہ بردار جہاز اوکلا ہوما کے عرشے کے نیچے پناہ تلاش کی۔

لیکن 80 سال پہلے دسمبر کے مہینے کی ایک صبح ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کیے گئے فیصلے نے ان کا ذہن تبدیل کر دیا اور شاید اسی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

ڈیوڈ رسل، جن کی عمر اب 101 سال ہے، نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے ’وہ ہیچ بند کرنا شروع کر دیا اور میں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘

ان کا جہاز تارپیڈوز کی بوچھاڑ کے نتیجے میں 12 منٹ کے اندر الٹ جانا تھا۔ اوکلاہوما کے 429 سیلرز اور میرینز کو ہلاک ہو جانا تھا۔ یہ یو ایس ایس ایریزونا کے بعد اس دن تک کی سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔ طیارہ بردار جہاز ایریزونا پر 1177 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رسل کا ارادہ ہے کہ وہ آج یعنی منگل کو دوبارہ پرل ہاربر جائیں گے، جہاں وہ سات دسمبر1941 کو ہونے والے اس حملے میں مرنے والے 2300 امریکی فوجیوں کی یاد میں منقعدہ تقریب میں شرکت کریں گے جس نے امریکہ کو دوسری عالمی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔

توقع ہے کہ حملے میں بچ جانے والے 30 فوجیوں سمیت جنگ میں حصہ لینے والے 100 سابق فوجی صبح سات بجکر 55 پر ایک لمحے کی خاموشی اختیار کریں گے۔

یہ وہ منٹ ہے جب حملہ شروع ہوا۔ حملے میں بچ جانے والے فوجی جو اس وقت 90 کے پیٹے کے آخری حصے یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں، گذشتہ سال کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کی وجہ سے گھروں میں رہے اور انہوں نے براہ راست نشر کی جانے والی تقریب دیکھی۔

رسل بیسٹ ڈیفنس فاؤنڈیشن کے ساتھ ہوائی سفر کر رہے ہیں۔ یہ غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو این ایف ایل (نیشنل فٹ بال لیگ) کے بانی لائن بیکر، ڈونی ایڈورڈز نے قائم کی اور دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے پرانے جنگی میدانوں کے دوروں میں ان کی معاونت کرتی ہے۔

رسل یاد کرتے ہیں کہ جب حملہ شروع ہوا تو وہ بالائی سمت میں گئے کیونکہ انہوں نے طیارہ شکن توپوں میں گولے ڈالنے کی تربیت لے رکھی تھی اور گولے بھرنے والے کسی بھی دوسرے شخص کے زخمی ہونے کی صورت میں وہ مدد کر سکتے تھے۔

لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچتے جاپانی تارپیڈو طیاروں نے کئی زیر آب میزائل گرا دیے جنہوں نے اوکلاہوما کو نشانہ بنا ڈالا۔ دیوقامت جنگی بحری جہاز 12 منٹ میں الٹ گیا۔

رسل کے بقول: ’وہ منحوس تارپیڈوز ہمیں لگتے رہے۔ بس لگتے رہے۔ میں نے سوچا کہ یہ کبھی نہیں رکیں گے۔ جہاز اِدھر سے اُدھر جھول رہا تھا۔‘

رسل ہاتھوں پیروں کے بل گرے ہوئے لاکرز کے اوپر اور ان کے اردگرد گھومتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آپ کو ایک طرح سے ترچھے ہو کر چلنا پڑتا ہے۔‘

ایک بار مرکزی عرشے پر پہنچنے کے بعد وہ جہاز کی ایک طرف ہاتھوں پیروں کے بل ہو لیے اور دیکھا کہ طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس میری لینڈ قریب ہی لنگرانداز ہے۔

وہ تیرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ خارج ہونے والا تیل نیچے پانی میں جل رہا تھا۔ چھلانگ لگا کر انہوں نے وہ رسہ پکڑ لیا جو میری لینڈ سے لٹک رہا تھا اور زخمی ہوئے بغیر بچ کر اس جنگی جہاز پر پہنچ گئے۔

تب انہوں نے گولے میری لینڈ کی طیارہ شکن توپوں تک پہنچانے میں مدد کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگ کے بعد رسل اوردو دیگر افراد غسل خانے کی تلاش میں جزیرہ فورڈ چلے گئے، جس کے قریب ہی جنگی جہاز لنگرانداز تھے۔

وہاں موجود ڈسپنسری اور رہائشی کوارٹرز کو طبی امداد کے لیے فیصلے کے مقام اور سینکڑوں زخمیوں کے لیے پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔

انہوں نے دیکھا کہ بری طرح جل جانے والے سیلرز دیواروں کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں۔ ان میں بہت سے اگلے چند گھنٹوں اور آنے والے دنوں میں مرنے والے تھے۔

رسل کے مطابق: ’ان میں بہت سے سگریٹ پینا چاہتے تھے اور میں اس وقت سگریٹ نہیں پیتا تھا لیکن ہاں، مجھے سگریٹ کی ایک اور ماچس کی چند ڈبیاں مل گئیں اور میں نے ان کے لیے سگریٹس سلگائے۔

رسل کے مطابق: ’آپ کو ان لوگوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے لیکن میں کچھ نہ کر سکا۔ بس ان کا سگریٹ جلایا اور انہیں سگریٹ کے کش لگانے دیے۔‘

رسل اب بھی سوچتے ہیں کہ وہ کس قدر خوش قسمت ثابت ہوئے تھے۔ وہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اوکلاہوما کی بالائی سمت جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔

انہیں علم تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ جو پیچھے رک گئے وہ عرشے میں بنا راستہ بند ہو جانے کے بعد وہاں سے نہیں نکل پائے۔

بم دھماکے کے بعد پہلے دو دنوں میں پرل ہاربر نیول شپ یارڈ کے سویلین عملے نے اوکلاہوما کے اندر پھنسے 32 افراد کو جہاز کے ہل میں سوراخ کرکے بچالیا لیکن بہت سے دیگر ہلاک ہوگئے۔

مرنے والوں میں سے زیادہ تر کو ہونولولو میں گمنام قبروں میں دفن کر دیا گیا جن پر ’نامعلوم‘ لکھ دیا گیا کیونکہ 1942 اور 1944 کے درمیان جہاز سے نکالے جانے تک ان کی باقیات کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔

2015 میں ڈیفنس پی او ڈبلیو/ ایم آئی اے اکاؤنٹنگ ایجنسی نے ڈی این اے ٹیکنالوجی اور دانتوں کے ریکارڈ کی مدد سے ان کی شناخت کی امید میں ان باقیات کے 388 سیٹ نکالے۔

وہ 361 سیٹس کی شناخت میں کامیاب رہے۔ رسل کے برادر نسبتی بھی ان میں شامل تھے۔ رسل نے کہا کہ فائرمین فرسٹ کلاس والٹر ’بونے‘ روجرز فائر روم میں تھے جسے تارپیڈو لگا۔

فوج نے 2017 میں ان کی باقیات کی شناخت کی اور اس کے بعد انہیں آرلنگٹن نیشنل سیمٹری میں دوبارہ دفن کردیا گیا۔ رسل 1960 میں ریٹائر ہونے تک بحریہ میں رہے۔ انہوں نے اگلی دو دہائیوں تک فضائیہ کے اڈوں پر کام کیا اور 1980 میں ہمیشہ کے لیے ریٹائر ہو گئے۔

ان کی اہلیہ وائلیٹ 22 سال قبل چل بسیں اور اب وہ البانی، اوریگون میں اکیلے رہتے ہیں۔ وہ سیاہ رنگ کی فورڈ ایکسپلورر گاڑی خود چلا کر جنرل سٹور اور مقامی امریکن لیجن چوکی پرجاتے ہیں۔

اس دوران وہ پوری آواز کے ساتھ پولکا موسیقی سنتے ہیں۔ جب وہ لیجن میں دیگر سابق فوجیوں کے ساتھ نہیں ہوتے تو وہ فوجی تاریخ پڑھتے اور ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس دماغ کو تیز رکھنے کے لیے 500 ٹکڑوں پر مشتمل پزلز ہیں۔

کئی دہائیوں تک رسل نے دوسری عالمی جنگ میں اپنے تجربات کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا کیونکہ بظاہر کسی کو اس کی پروا نہیں تھی لیکن پرل ہاربر کے مناظر آج بھی ان کا پیچھا کرتے ہیں، خاص طور پر رات کے وقت۔

رسل کے مطابق: ’جب میں سان فرانسسکو میں وی اے ہسپتال میں تھا تو انہوں نے کہا وہ چاہتے ہیں آپ دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بات کریں۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات پر یقین نہیں کرتے۔ بس وہ چلے جاتے ہیں۔ تو اب لوگ اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں اور ہم اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم انہیں وہ بتا رہے ہیں جو ہم نے دیکھا۔ آپ اسے بھلا نہیں سکتے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ