’اصل بیان حلفی 13 دسمبر تک جمع نہ ہوا تو رانا شمیم پر فرد جرم عائد ہوگی‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اصل بیان حلفی طلب کر لیا ہے۔

اسلام آباد میں منگل کو رانا شمیم کے دیے گئے متنازع بیان حلفی کے حوالے سے توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی (اے ایف پی فائل)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے متازع بیان حلفی جمع کروانے والے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو عدالت میں اصل بیان حلفی جمع کروانے کے لیے 13 دسمبر تک کا وقت دے دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سابق جج کے وکیل لطیف آفریدی نے بیان حلفی کے مندرجات کی تصدیق کی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیر تک رانا شمیم ہر صورت عدالت میں اصل بیان حلفی جمع کروائیں، اور اگر نہ ہوا تو  عدالت ان پر فرد جرم عائد کر دے گی۔

سماعت کے آغاز میں عدالت نے پہلے رانا شمیم کے وکیل کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ 10 منٹ تک عدالت پہنچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خبر دینے والے صحافی انصار عباسی اور ایڈیٹر عامر غوری بھی کمرہ عدالت میں روسٹرم کے قریب موجود تھے۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتےہوئے کہا کہ توہین عدالت کے حوالے سے سیکشن موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خبر  میں دو اہم شخصیات کا موقف نہیں لیا گیا، رجسٹرار ہائی کورٹ اور عدالت۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ حقائق چیک کیے بغیر  بیان حلفی اور خبر شائع کرنے کی کیا جلدی تھی۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کا موقف ہے بیان حلفی ذاتی دستاویز تھا اور انہوں نے شائع کرنے کو نہیں کہا تھا تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر بیان حلفی ذاتی تھا تو صحافی سے سوال کیوں نہیں پوچھا گیا۔ ’اتنی ایمرجنسی کیا تھی جو بیان حلفی دیا گیا؟‘

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کے 13 منٹ لیٹ عدالت پہنچنے پر چیف جسٹس نے انہیں خوش آمدید کہتے  ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ لطیف کے پاس چھڑی کیوں ہے؟ یہ چھڑی  قانون کی عمل درآمد کے لیے رکھی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ان سے سنجیدہ دلائل کی توقع کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان حلفی کے بعد ایک بیانیہ بننا شروع ہو گیا کہ انتخابات کے قریب ایک خاص شخص کو جیل سے باہر نہیں آنے دینا، اسے ضمانت نہیں دینی۔ ’بیانیہ یہ بنا کہ جج دباؤ میں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ جب خبر کے مطابق رانا شمیم کے سامنے سابق چیف جسٹس نے کسی اور جج کو فون کر کے من پسند فیصلے کے لیے دباؤ ڈالا تو یہ بات تین سال بعد کیوں سامنے آرہی ہے اور وہ تین سال کیوں خاموش رہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا: ’جس جج کے بارے میں بات کی وہ چھٹی پر تھے اور جو جج بینچ میں تھے وہ بہت قابل جج محسن اختر کیانی، جسٹس حسن گل تھے۔ یہ تو پھر ان ججوں پر الزام لگانے کی کوشش ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا: ’اخبار کی خبر کے مطابق ہائی کورٹ  کے تمام ججوں نے سمجھوتہ کیا ہوا ہے۔‘

انہوں نے سوال کیا کہ تین سال بعد برطانیہ جا کر بیان حلفی کیا سوچ کر دیا گیا۔ ’کیا ان کا ضمیر جاگ گیا؟‘

چیف جسٹس نے رانا شمیم کے وکیل سے مزید کہا کہ ’آپ کے موکل نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے وہ بیان حلفی لاکر میں رکھا اور پتہ نہیں کیسے باہر آیا؟ لاکر میں بیان حلفی رکھنے کا کیا مقصد تھا؟ بیان حلفی پاکستان یا برطانیہ میں کسی نہ کسی ادارے میں جمع کروانے کے لیے ہی دیا گیا؟ اب سول یہ ہے کہ لاکر میں رکھنے کے لیے تو بیان حلفی نہیں دیا گیا۔ اب اس بیان حلفی کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سبکی ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں اور بار کے وکلا  سے کچھ پوشیدہ نہیں ہوتا یہ کارروائی شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ سچ سامنے آئے۔ ’یہ عدالت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ ہائی کورٹ پر عوام کا اعتماد متزلزل کیا جائے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ میں یہ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں آپ سب ہمارا احتساب کر سکتے ہیں لیکن ساکھ متاثر نہیں کر سکتے۔ اس کو توہین عدالت کی کارروائی نہ سمجھیں لیکن یہ بتائیں انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیوں بنایا؟ اصل دستاویز کہاں ہے،؟

لطیف آفریدی نے عدالت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے واضح کیا کہ رانا شمیم نے بیان حلفی کے مندرجات سے انکار نہیں کیا لیکن رانا شمیم نے بیان حلفی شائع ہونے کے لیے نہیں دیا۔ وہ بیان حلفی برطانیہ میں ان کے پوتے کے پاس ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اصلی بیان حلفی عدالت میں جمع کروایا جائے۔ ’اس عدالت پر اتنا بڑا الزام لگا ہے لیکن آپ کا موکل اصل بیان حلفی جمع کروانے سے گریزاں ہیں۔ اصلی بیان حلفی اس عدالت کو جمع کرائیں تو پتہ چلے گا۔‘

لطیف آفریدی نے عدالت سے کہا کہ رانا شمیم کو لندن جانے کی اجازت دی جائے تاکہ اصل بیان حلفی لے کر آئیں، لیکن عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں۔

’اگر رانا شمیم نے بیان حلفی کسی اور مقصد کے لیے بنایا اور اس کا مقصد کہیں ریکارڈ کا حصہ بنانا نہیں تھا تو اس صورت میں دستاویز سامنے آنا دونوں فریقین اخبار اور رانا شمیم کے لیے سنگین ہوں گے۔‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی تحریری فیصلے کے بعد انہوں نے رانا شمیم اور برطانیہ کو بھی خط لکھا اور کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بیان حلفی دیں، کیونکہ رانا شمیم کے بیٹا اور پوتا اس وقت برطانیہ میں موجود ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہےکہ رانا شمیم کے پوتے کو کسی نے لندن نے ہراساں کیا ہے؟ اب یہ ہمیں تشویش ہے کہ ان کو ہراساں کس نے کیا؟ اور اصل دستاویز کہاں ہے؟

ان کے بقول اس کہانی میں بہت جھول ہیں جس کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد عدالت نے 13 دسمبر تک بیان حلفی جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں دعویٰ کیا کہ ہر روز ان کی گاڑی کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ بیان حلفی سے متعلق انہوں نے مزید کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان