اے پی ایس:ملاقات کی کامیابی پر حکومت، والدین کےمتضاد دعوے

عجون خان ایڈوکیٹ نے بتایا: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی ظہیرالاسلام، وزیر اعلیٰ خیبر پختو نخوا پرویز خٹک اور سیکریٹری خارجہ اختر علی شاہ کے خلاف قانون کے مطابق ایف آئی آرز درج کی جائیں۔‘

آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے میں جان سے جانے والے طلبہ کے والدین اور رشتے دار سات فروری 2015 کو غیر تسلی بخش تفتیش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے ایک وفد نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) واقعے میں جان گنوانے والے طلبہ کے والدین سے پشاور میں ملاقات کرنے کی کوشش کی جو بظاہر بری طرح ناکام رہی ہے۔

اے پی ایس میں جان سے جانے والے ایک بچے کے والد عجون خان ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق چار ہفتے 10 دسمبر یعنی کل بروز جمعہ پورے ہونے والے تھے اور وفاقی حکومت کا وفد وفاقی وزیر عمر ایوب کی سربراہی میں صرف ایک دن پہلے ہم سے ملنے آیا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت اور حکومتی وفد کی عدم دلچسپی کے باعث والدین نے ملاقات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پشاور میں احتجاج کیا اور سڑک بھی بلاک کی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اے پی ایس کے واقعے میں جان سے جانے والے بچوں کے والدین کی درخواست پر 10 نومبر کو وفاقی حکومت کو درخواست گزاروں سے ملاقات کرکے چار ہفتوں میں وزیر اعظم عمران خان کے دستخط کے ساتھ رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

عجون خان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا: ’ہم والدین کا اب ایک ہی مطالبہ ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیں اور یہی بات ہم سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھیں گے۔‘

وزارت داخلہ کا موقف

والدین کے بیان کے برعکس حکومتی وفد میں شامل تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ساجدہ بیگم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ان کی ملاقات بہت کار آمد اور نتیجہ خیز رہی اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’شروع میں بچوں کے والدین بہت جارحانہ تھے لیکن ہم نے ان کی سخت باتیں بھی آرام اور تحمل سے سنیں اور ان کے مطالبات پر غور کرنے کا یقین دلایا۔‘

ساجدہ بیگم نے مزید کہا کہ ’کچھ دیر بعد ہی تمام والدین کمیٹی اراکین کے ساتھ گھل مل گئے اور باقی ماندہ وقت نہایت خوشگوار ماحول میں گزرا۔‘

رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا: ’ابھی میں اس ملاقات کے نتیجے سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی بہرحال ہم نے کوشش کی کہ ان کو دلاسہ دیں اور ان کی باتیں سنیں۔‘

اس سوال کا جواب دینے سے انہوں نے انکار کردیا کہ بچوں کے والدین ذمہ دار افراد کے خلاف ایف آئی آر دائر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’والدین یقینا افسردہ ہیں، ان کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور حکومت ان کی داد رسی کی پوری کوشش کرے گی۔‘

وفاقی حکومت کی مزید مہلت مانگنے کی درخواست

دوسری جانب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید تین ہفتوں کی مہلت دینے کی درخواست کی ہے۔

جمعرات کی صبح سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اے پی ایس میں جان گنوانے والے بچوں کے والدین سے ملاقات اور مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ والدین سے ملاقات کرنے والی کمیٹی کے نتائج کا انتظار کیا جانا چاہیے جبکہ 16 دسمبر کو اے پی ایس کی برسی بھی منائی جا رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے داخل کی گئی درخواست میں بتایا گیا کہ مذکورہ کمیٹی میں وفاقی وزرا عمر ایوب خان، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور صاحبزادہ محمد محبوب سلطان شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹریز دفاع اور داخلہ کو بھی ان ملاقاتوں میں مدعو کیا جانا تھا لیکن عجون خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جمعرات کو والدین کے ساتھ ملاقات کرنے والوں میں حکومتی کمیٹی کے اراکین میں سے صرف وفاقی وزیر عمر ایوب خان شامل تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’باقی انہوں نے خانہ پری کے لیے زرتاج گل اور ایک آدھ ایم این اے کو بھیج دیا تھا۔‘ 

ایک دوسرے مرحوم طالب علم کے والد محمد طاہر خان کا کہنا تھا کہ ان سے ملاقات کے لیے آنے والے حکومتی نمائندوں نے نہایت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث انہوں نے اس ملاقات کا بائیکاٹ کیا۔ 

وفاقی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت اے پی ایس میں جان سے جانے والے بچوں کے والدین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں کام بھی جاری ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس سلسلے میں واضح ہدایات جاری کی ہوئی ہیں اور وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے جس کی روشنی میں اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

ملاقات میں کیا ہوا؟ 

محمد طاہر خان نے کہا کہ انہیں ایک روز قبل جمعرات کی ملاقات سے متعلق اطلاع دی گئی اور اس مقصد کے لیے آرکائیو لائبریری کے ہال کا انتخاب کیا گیا۔

’ہم جمعرات کو صبح صبح وہاں پہنچ گئے اور تمام 147 والدین ہال میں 10 بجے سے پہلے موجود تھے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومتی وفد مقررہ وقت سے کافی دیر کے بعد پہنچا اور ہال میں آنے کے بجائے اوپر ڈائریکٹر کے کمرے میں چائے پینے چلے گئے جس پر والدین کافی ناراض ہوئے۔‘

تاہم مرکزی ہال میں ملاقات کے شروع ہونے پر وفاقی وزیر عمر ایوب خان نے والدین سے خطاب میں کہا کہ وفاقی حکومت کو والدین کے دکھ کا پورا احساس ہے اور اسی وجہ سے کمیٹی بنائی گئی جو رپورٹ تیار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔
اس موقع پر بچوں کے والدین نے حکومتی وفد پر واضح کیا کہ ان کا واحد مطالبہ اے پی ایس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہے اور اس سے کم پر ان کی تسلی نہیں ہوگی۔

عجون خان ایڈوکیٹ نے بتایا: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اس وقت کے سی او اے ایس جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی ظہیرالاسلام، وزیر اعلی خیبر پختو نخوا پرویز خٹک اور سیکریٹری خارجہ اختر علی شاہ کے خلاف قانون کے مطابق ایف آئی آرز درج کی جائیں۔‘

سپریم کورٹ میں کیا ہو گا؟ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 10 نومبر کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت نے چار ہفتے میں (یعنی 10 دسمبر تک) عدالت میں وزیر اعظم عمران خان کے دستخط کے ساتھ جامع رپورٹ جمع کرانی ہے۔

عجون خان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے والدین کی درخواست کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ ’آئندہ تاریخ کا اعلان وفاقی حکومت کی رپورٹ ملنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔‘ 

انہوں نے کہا: ’ہم سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے اور عدالت کو بتائیں گے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں کتنی غیر سنجیدہ ہے وہ ہم سے ملنے صرف ایک دن پہلے آرہے ہیں اور وہ بھی اتنے عامیانہ انداز میں۔‘ 

عجون خان ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ مہلت وفاقی حکومت نے طلب کی ہے جبکہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کی درخواست کی آئندہ سماعت جلد از جلد رکھی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان