ڈونکی ڈیموکریسی اور ڈریگن ڈالر

سفارتی آداب کے پیش نظر پاکستان نے واضح الفاظ و انداز میں صدر بائیڈن کے سمٹ میں شرکت سے انکار تو نہیں کیا لیکن اس اجلاس میں نہ جا کر پاکستان نے امریکہ کے سامنے دوٹوک طریقے سے اپنی پوزیشن ضرور واضح کر دی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 10 دسمبر 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس سے متصل آئزن ہاور ایگزیکٹو آفس بلڈنگ میں جمہوریت کے لیے ورچوئل سمٹ کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ڈیموکریٹ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے منعقدہ دو روزہ ورچوئل ڈیموکریسی اجلاس رواں ہفتے کا سب سے بڑا عالمی ایونٹ تھا جس میں انتہائی ہوشیار سمجھ بوجھ اور چھانٹ پرکھ کے بعد دنیا بھر سے ایک سو گیارہ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی۔

اس سمٹ کا بظاہر مقصد تو یہ تھا کہ نہ صرف خود صاحب امریکہ بہادر اپنے ملک میں پیدا ہونے والی جمہوری خامیوں پر نظرثانی کر سکے بلکہ دنیا بھر میں گذشتہ چند سالوں سے جمہوری اقدار اور اصولوں کو پہنچنے والی شکست و ریخت کی نشاندہی کیے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کی جا سکے نیز دنیا میں زور پکڑنے والے آمرانہ نظام حکومت کی حوصلہ شکنی بھی عمل میں لائی جا سکے۔

جن ایک سو گیارہ ممالک کو صدر جو بائیڈن کی اس عالمی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی، حیران کن طور پر ان میں پاکستان بھی شامل تھا لیکن ان تمام ممالک میں سے جس واحد ملک نے شرکت سے انکار کیا وہ بھی پاکستان ہی تھا۔ اس اہم ترین سمٹ میں نہ جانے کے کیا اثرات پاکستان کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں، ان پر بحث تو آگے چل کر کی جائے گی لیکن مہمان ممالک کی فہرست کے سامنے آتے ہی اس ڈیموکریسی اجلاس کے متنازعہ ہونے کی خبریں سرگرم ہو گئیں۔

سب سے اہم بات یہ رہی کہ امریکہ کے دیرینہ حریف ممالک چین اور روس کو اس سمٹ کی دعوت سے یکسر نظر انداز کر دیا گیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ صدر بائیڈن کا ڈیموکریسی سمٹ دراصل دو قطبی دنیا (bipolar world) کی جانب ایک سوچا سمجھا قدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس کی طرف سے سَمٹ کی بھرپور مخالفت سامنے آئی اور دونوں ممالک نے امریکہ کی اندرونی جمہوری خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اس اجلاس کی میزبانی کے لیے غیرموزوں ملک قرار دے دیا۔

چین نے تو یہاں تک مطالبہ کر دیا کہ اگر اس قسم کے کسی اجلاس کی ضرورت ہے تو اس کا مناسب فورم اقوام متحدہ ہے جہاں تمام ممالک برابری کی سطح پر معاملے اور موضوع سے متعلق بحث کر سکیں۔ بظاہر چین کا اعتراض اور تجویز بجا محسوس ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کانفرنس کی آڑ میں امریکہ نے اپنے وسیع البنیاد سٹریٹیجک مقاصد کا فروغ اور یقین دہانی بھی حاصل کرنی تھی۔

یہی وجہ ہےکہ اگر مدعو کیے گئے ایک سو گیارہ ممالک کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو باآسانی واضح ہو جاتا ہے کہ بائیڈن بیوروکریسی نے کن بنیادوں پر مدعو ممالک کا انتخاب کیا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا میں سے صرف چار ممالک پاکستان، بھارت، نیپال اور مالدیپ کا انتخاب کیا گیا جبکہ جغرافیائی خطے میں سے نہ صرف چین کو بلکہ افغانستان اور ایران کو بھی مائنس کر دیا گیا۔

بھارت تو خیر امریکہ کا دیرینہ سٹریٹیجک پارٹنر ہے مگر پاکستان کو دعوت نامہ دیا جانا بہت گہری امریکی سوچ کا مظہر تھا۔ پاکستان کے چین کے ساتھ گھمبیر معاشی اور سٹریٹیجک تعلقات، افغانستان کے حالیہ بحران میں پاکستان کے کردار، امریکی صدر کی ایک سال سے زائد عرصے کے باوجود پاکستانی وزیراعظم کو فون کال نہ کیے جانے کی ناراضگی اور حالیہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو نظرانداز کیے جانے کی شکایت ان اہم وجوہات میں سے چند تھیں جن کی بنا پر امریکہ نے ڈیموکریسی کانفرنس کی دعوت پاکستان تک وسیع کی۔

اگرچہ سفارتی آداب کے پیش نظر پاکستان نے واضح الفاظ و انداز میں صدر بائیڈن کے سمٹ میں شرکت سے انکار تو نہیں کیا لیکن اس اجلاس میں نہ جا کر پاکستان نے امریکہ کے سامنے دوٹوک طریقے سے اپنی پوزیشن ضرور واضح کر دی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنے پلڑے کا جھکاؤ چین کی جانب رکھا ہو۔ گذشتہ کم و بیش دس گیارہ سال سے کم از کم پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کے مقابلے میں چین اور سعودی عرب کی طرف زیادہ مائل رہا ہے۔ امریکہ کےساتھ تو بہرحال پاکستان کے تعلقات تاریخی اعتبار سے ہی اتار چڑھاؤ، اونچ نیچ، نفرت اور پیار کے درمیان ڈانواں ڈول رہے ہیں لیکن اوپر بیان کیے گئے عرصے میں خاص طور پر پاکستان کا انحصار جس انداز سے چین، سعودی عرب اور امریکہ کے مقابلے میں دیگر ممالک کے ساتھ قائم ہوا ہے وہ غیر معمولی تو ہے ہی مگر اس یک طرفہ جھکاؤ کے منفی اثرات سے بھی پاکستان محفوظ نہیں رہا۔

سرد جنگ سے قبل اگر دنیا دفاعی اعتبار سے بلاکس میں تقسیم تھی تو سرد جنگ کے بعد سے یہ تقسیم معاشی بلاکس میں ڈھل گئی ہے۔ لیکن دنیا کے ذمہ دار اور سمجھ دار ممالک نے سرد جنگ کے اثرات سے سبق سیکھا ہے وہ جان گئے ہیں کہ دفاعی اعتبار سے کسی ایک پلڑے کا حصّہ رہنا پھر بھی نسبتاً قابل برداشت ہو مگر معاشی اعتبار سے خود کو بلاکس کی سیاست میں کھلے عام ڈھال لینا تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں قطعاً فراست پر مبنی پالیسی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد سے آج تک امریکی بلاک میں شریک ممالک کے معاشی اعتبار سے چین کے ساتھ گہرے مراسم قائم ہیں اور ان کی تجارت کا بڑا حصّہ چین کے ساتھ نتھی ہے۔ پاکستان کے لیے اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال بھارت کی ہے جو امریکہ کا دیرینہ سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے اور یہ اَمر بھی پوری دنیا کےلیے کھلے راز کی مانند ہے کہ خِطّے میں چین کے سٹریٹیجک مفادات کو محدود کرنے کے لیے بھارت امریکہ کا بغل بچہ اور بچہ جمہورا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود بھارت کی تجارت اور معیشت کا بڑا دارومدار چین کے ساتھ ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کے کَٹّر حریف روس تک کے ساتھ بھارت کے گہرے معاشی اور دفاعی روابط ہیں۔ بلکہ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم اور روسی صدر کی ملاقات اور اس کے نتیجے میں طے پانے والے کثیر رقمی اور کثیر المقاصد دفاعی اور معاشی سمجھوتے نہ صرف خِطے بلکہ دنیا میں دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مظہر ہیں۔

بھارت امریکہ کے ساتھ اپنی پیار کی پینگیں بھی مضبوط تر رکھے ہوئے ہے اور چین اور روس کا دل بھی لبھائے ہوئے ہے۔ نہ صرف امریکہ کے ڈیموکریسی سَمٹ میں مرکزی شرکت کرتا ہے بلکہ چین اور روس کی معاشی اور دفاعی طاقت کو بھی اپنے مفادات کے لیے چالاکی سے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ ذمہ دار اور سمجھ دار ریاستیں عالمی تعلقات میں صرف اور صرف اپنے عوامی مفادات کو مدنظر اور مقدم رکھتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دنیا اچھی طرح سے جان گئی ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بَقا کسی ایک طاقت کے مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے سے ممکن نہیں۔ ایسے میں پاکستان نے ڈھکے چھپے سفارتی انداز سے امریکی صدر کی کانفرنس سے انکار کر کے اور عدم شرکت کو ظاہر کر کے ایک بڑی ریاستی اور پالیسی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف آئندہ سالوں بلکہ دہائیوں تک شاید جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ اس اجلاس سے غیر حاضر ہو کر پاکستان نے نہ صرف بھارت کو عالمی منظرنامے پر کھل کھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے بلکہ پاک امریکہ تعلقات میں پہلے سے جاری تناؤ میں نرمی لانے کا بڑا موقع بھی گنوایا ہے۔

پاکستان کی داخلی اور بیرونی سلامتی اور معیشت کے دگرگوں حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم ریاستی سطح پر اپنی ’وَن ونڈو فارن پالیسی‘ کا دوبارہ جائزہ لیں اور خود کو کسی ایک معاشی یا دفاعی بلاک کا مزید دیر تک حصّہ بنے رہنے سے گریز اختیار کرتے ہوئے اپنے عوامی مفادات کی غرض سے عالمی تعلقات کو کثیر ملکی مقاصد کے تحت بروئے کار لائیں۔

اپنی خارجہ پالیسی کو کسی ایک ملک یا کسی ایک بلاک کا اسیر بننے سے محفوظ رکھیں اور ایسی خوددار اور مضبوط خارجہ پالیسی کی تشکیل کریں جس میں کسی بھی ڈکٹیشن کی گنجائش موجود نہ ہو۔ یہی ایک دانشمند اور مدبر ریاست کی نشانی ہے اور یہی اقوامِ عالم میں عزت دار مقام حاصل کرنے اور خود کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی اہم کنجی ہے۔

آخر کو یہ بھی تو حقیقت ہی ہے کہ معاشی راہداری بھلے ڈریگن کی ہی کیوں نہ ہو لیکن لین دین تو اس کی بھی ڈالر میں ہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ