کابل ڈرون حملہ: کسی امریکی فوجی کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہوگی

رواں برس 29 اگست کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں بچوں سمیت 10 افراد کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’ذاتی احتساب کے لیے یہ کیس اتنا مضبوط نہیں تھا۔‘

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام نے کہا ہے کہ رواں برس 29 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ڈرون حملے میں ملوث کسی امریکی فوجی کو تادیبی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں بچوں سمیت 10 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو کہا کہ سکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے اعلیٰ جرنیلوں کو حملے کی رپورٹ کا جائزہ لینے کا کہا تھا، جنہوں نے جائزے کے بعد حملے میں ملوث فوجیوں کے خلاف جوابدہی کی کوئی سفارش پیش نہیں کی۔

جان کربی نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ سکریٹری دفاع لائیڈ آسٹ نے ان سفارشات کو منظور کر لیا ہے اور مزید احتسابی اقدامات کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔

جان کربی نے مزید کہا: ذاتی احتساب کے لیے یہ کیس اتنا مضبوط نہیں تھا۔‘

پینٹاگون نے امریکی فضائیہ کے لیفٹیننٹ جنرل سیمی سیڈ کو کابل میں سفید ٹویوٹا کرولا پر ہونے والے ڈرون حملے کی تحقیقات کا فریضہ سونپا تھا، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے سات بچوں سمیت 10افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کے 37 سالہ ڈرائیور ضمیری احمدی ایک امریکی این جی او کے ملازم تھے۔

اس گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا، جب کار گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی اور بچے ضمیری کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی جانب لپکے تھے۔

مذکورہ کار اور اس کے ممکنہ خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب اگست میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے دوران امریکہ اپنے شہریوں اور اتحادیوں کو ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسی انخلا کے دوران داعش کے ایک خودکش بمبار نے کابل کے ہوائی اڈے کے گیٹ پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں اور 169 افغان شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

جنرل سیمی سیڈ کی جانب سے کی گئی آزادانہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ حملے کے دوران مواصلاتی نظام میں خلل اور بمباری کے ہدف کی شناخت اور تصدیق کے عمل میں خرابی کا علم ہوا ہے۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’غلطی سے ہونے والا یہ حملہ‘ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے محتاط اقدامات کے باوجود پیش آیا۔

لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے اس وقت کہا تھا: ’میں نے محسوس کیا کہ دستیاب معلومات اور تجزیے کے پیش نظر وہ غلط نتیجے پر پہنچے تھے لیکن یہ غیر معقول نہیں تھا۔ یہ صرف غلط ثابت ہوا۔‘

لیفٹیننٹ جنرل سیڈ امریکی فضائیہ کے انسپکٹر جنرل ہیں اور انہیں اس لیے بھی آزاد خیال کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا افغانستان کے آپریشنز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا۔

ان کی رپورٹ کے بعد سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی اور سپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ جنرل رچرڈ کلارک سے کہا تھا کہ وہ جنرل سیمی سیڈ کے نتائج کا جائزہ لیں اور سفارشات کے ساتھ ان کے پاس واپس آئیں۔ دونوں کمانڈروں نے سیمی سیڈ کے نتائج سے اتفاق کیا اور انہوں نے کسی تادیبی کارروائی کی سفارش نہیں کی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جان کربی نے پیر کو کہا کہ لائیڈ آسٹن نے جرنیلوں کی جانب سے تادیبی کارروائی کی ضرورت نہ ہونے کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے اس تجویز کو قبول کیا کہ آئندہ آپریشنز میں مواصلات اور رابطوں میں بہتری لائی جائے۔ 

انہوں نے مزید کہا: ’ان کی سفارشات میں سے کوئی بھی خاص طور پر احتساب سے متعلق نہیں ہے، لہذا میں یہ توقع نہیں کرتا کہ 29 اگست کے فضائی حملے کے حوالے سے ذاتی احتساب کے مسائل ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جان کربی نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس فیصلے کو پسند نہیں کریں گے، لیکن یہ ایسا نتیجہ نہیں تھا جس پر ہم سوچے سمجھے یا غور و فکر کے بغیر پہنچے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کو یقین ہے کہ احتساب کی ضرورت ہے تو وہ یقینی طور پر اس قسم کی کوششوں کی حمایت کریں گے۔

دوسری جانب امدادی تنظیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل (جس کے لیے حملے میں ہلاک ہونے والے ضمیری کام کرتے تھے) کے بانی سٹیون کوون نے اس فیصلے کو ’چونکا دینے والا‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’ہماری فوج کیسے غلط طریقے سے 10 قیمتی افغان لوگوں کی جان لے سکتی ہے اور کسی کو بھی جوابدہ نہیں ٹھہرا سکتی؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’جب پینٹاگون خود کو احتساب سے بری کر دیتا ہے تو اس سے ایک خطرناک اور گمراہ کن پیغام جاتا ہے کہ اس کے اقدامات کسی نہ کسی طرح جائز تھے۔‘

دوسری جانب اے پی کے مطابق امریکہ لواحقین اور زندہ بچ جانے والے خاندان کے افراد کو مالی معاوضہ ادا کرنے اور ممکنہ طور پر انہیں افغانستان سے نکالنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے، لیکن ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ اس میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟ جان کربی نے کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ مذکورہ خاندان کو ہر ممکن حد تک محفوظ طریقے سے باہر نکالا جائے اور اس کے بارے میں اعلیٰ سطح پر بات چیت جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا