’صرف معافی کافی نہیں‘: امریکی ڈرون حملے سے متاثرہ خاندان

ضمیری امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے اور ملک کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد وہ اپنے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو لاحق خطرے کے پیش نظر امریکی ویزے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ضمیری  خاندان کے واحد کفیل تھے جو ایمل اور ان کے بچوں سمیت اپنے تینوں بھائیوں کی کفالت کرتے تھے(اے ایف پی)

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد حامد کرزئی ایئرپورٹ پر داعش خراسان کے حملے کا بدلہ لینے کے لیے امریکہ نے ایک ہی خاندان کے سات بچوں سمیت 10 افراد کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔  لیکن اب اس ’غلطی‘ پر واشنگٹن کی معافی اس بدقسمت خاندان کے لیے کافی نہیں ہے۔

ایمل احمدی، جن کی تین سالہ بیٹی 29 اگست کو ان کے بھائی کی گاڑی پر امریکی فضائی حملے میں ماری گئی تھی، نے ہفتے کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ ان کاخاندان چاہتا ہے کہ امریکہ ڈرون کو آپریٹ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کرے اور اس میں ملوث فوجیوں کو سزا دی جائے۔

احمدی نے کہا: ’ہمارے لیے صرف معذرت کر لینا کافی نہیں ہے۔ امریکہ کو اس شخص کو تلاش کرنا چاہیے جس نے یہ حملہ کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا خاندان اپنے نقصانات کے لیے مالی معاوضہ اور کسی تیسرے ملک آبادی کاری کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔

اے پی اور کابل کی دیگر خبر رساں تنظیموں نے ڈرون حملے کے بعد رپورٹ دی تھی کہ نشانہ بننے والی گاڑی کا ڈرائیور ضمیری احمدی ایک امریکی این جی او کا ملازم تھا جب کہ ان کی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کے پینٹاگون کے دعوے کے حوالے سے بھی شواہد نہیں ملے۔

گاڑی کو میزائل سے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب کار گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی اور بچے ضمیری کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی جانب لپکے تھے۔

جمعہ کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے اس فضائی حملے کو ایک ’افسوسناک غلطی‘ قرار دیا اور کئی ہفتوں کی تردید کے بعد تسلیم کیا کہ اس حملے میں داعش کے رکن کے بجائے بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔

یہ ڈرون حملہ داعش خراسان کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کے گیٹ پر تباہ کن خودکش دھماکوں کے بعد کیا گیا تھا جس میں 169 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی اہلکاروں ہلاک ہو گئے تھے۔

میک کینزی نے اس ’غلطی‘ پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ متاثرہ خاندان کو معاوضہ کی ادائیگی کرنے پر غور کر رہا ہے۔‘

ایمل احمدی نے کہا کہ ’ان کا خاندان بے گناہ تھا اور امریکہ کو یہ غلطی تسلیم کرنے میں کئی ہفتے لگے۔‘

انہوں نے سوال کیا کہ ’امریکہ ان کے گھر کو داعش کا ٹھکانہ سمجھنے کی غلطی کیسے کر سکتا ہے؟‘

انہوں نے امریکی ڈرون صلاحیتوں کے بارے میں کہا کہ ’امریکہ ہر جگہ سے دیکھ سکتا ہے۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ گاڑی کے قریب اور کار میں معصوم بچے موجود ہیں۔ جس نے بھی ایسا کیا اسے سزا ملنی چاہیے۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے امریکہ کی معذرت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ’اس سے ان کے خاندان کے افراد واپس نہیں آئیں گے۔‘

تاہم انہوں نے امریکہ کی جانب سے غلطی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

ضمیری کی تباہ حال اور جلی ہوئی کار کی باقیات کے سامنے بیٹھے ان کے بھائی ایمل نے کہا کہ ’ہم امریکہ سے معذرت کی بجائے انصاف چاہتے ہیں جس میں اس بات کی تحقیقات بھی شامل ہیں کہ یہ حملہ کس نے کیا اور میں چاہتا ہوں کہ امریکہ اسے سزا دے۔‘

ضمیری امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے اور ملک کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد وہ اپنے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو لاحق خطرے کے پیش نظر امریکی ویزے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ضمیری خاندان کے واحد کفیل تھے جو ایمل اور ان کے بچوں سمیت اپنے تینوں بھائیوں کی کفالت کرتے تھے۔

ایمل احمدی نے کہا: ’اب سارے خاندان کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے اور میں بے روزگار ہوں۔

طالبان کے زیر انتظام ملک کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمدی نے کہا کہ صورتحال ’اچھی نہیں ہے۔‘

بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے افغانستان میں ایسے انسانی بحران سے خبردار کیا ہے جو زیادہ تر افغانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا