کابل میں طالبان حکومت کے بعد وہاں سے نکلنے والے صحافی

’اچانک ہم نے باہر گلیوں میں شور سنا کیونکہ لوگ چیخ و پکار کر رہے تھے۔ جب ہم نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو گلیاں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ ہر طرف بھاگ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔‘

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وہاں موجود صحافی نہ صرف خوف و ہراس میں مبتلا ہیں بلکہ ان کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے کئی خواتین صحافیوں کو ان کے دفاتر میں جانے سے روک دیا جب کہ کئی صحافی مرد اور خواتین نے  ملک چھوڑنے پر ہی عافیت سمجھی ہے۔

ایسے ہی دو صحافیوں شاہ زیب واہلہ اور سونیا غزالی سےانڈپییڈنٹ اردو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں غیر ملکی صحافی تو خطرات سے دوچار ہیں ہی لیکن زیادہ خطرہ لوکل مقامی صحافیوں کو ہے جو نہ تو ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں اور نہ ہی طالبان ان کو سکون سے رہنے دیں گے۔

دوسری جانب میڈیا کو ڈیل کرنے والے سینئیر طالبان سے جب صحافیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی شروع کے دن ہیں، حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جب کہ 15 اگست کو رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نامی صحافی تنظیم کی جانب سے پوچھنے پر بھی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت میں صحافیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، نہ ہی کوئی انتقامی کارروائی کی جائے گی۔

شاہ زیب واہلہ اور سونیا غزالی کابل میں فرانسیسی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں اور اس دوران انہوں نے دنیا بھر کو طالبان کے قبضے، ان کی حکومت اور افغانستان کی سیاسی اور معاشرتی صورت حال سے متعلق مسلسل خبروں کی صورت میں آگاہی دی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے فہد عزیز نے دونوں صحافیوں سے پوچھا کہ وہ کس طرح وہاں سے جان بچانے میں کامیاب ہوئے اور اس دوران ان کو کن کن مسائل کا سامنا رہا؟

شاہزیب واہلہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جب اپنے ہوٹل سے نکلے تو ہر طرف دیکھا کہ لوگ اپنا سامان، اپنا گھر، سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے بچے اٹھا کر سڑکوں پہ بھاگ رہے تھے کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ کہیں طالبان کابل کو بند تو نہیں کر دیں گے۔‘
سونیا غزالی کا کہنا تھا کہ  ’جب طالبان نے قبضہ کیا تو ہم گھر پر تھے اور کام کر رہے تھے۔ اچانک ہم نے باہر گلیوں میں شور سنا کیونکہ لوگ چیخ و پکار کر رہے تھے۔ جب ہم نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو گلیاں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ ہر طرف بھاگ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔‘

’ہم نے وہ ساری افراتفری ایک گھنٹے تک دیکھی ۔اس سے پہلے ہم کئی لوگوں سے فون پر بات کر چکے تھے اور لوگوں کی ٹویٹس بھی دیکھ چکے تھے۔ ساتھ ہی لوگوں کے سوشل میڈیا پر ہم طالبان کی تصویریں بھی دیکھ چکے تھے ان جگہوں جن کو ہم بہت اچھے سے جانتے تھے۔‘

’یہ وہ جگہیں تھیں جو کابل کے اندرونی علاقوں کی تھیں۔ تب ہم سمجھ گئے کہ طالبان شہر میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ طالبان تب آئیں گے جب بیرونی فورسز ستمبر میں یہاں سے جا چکی ہوں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سونیا غزالی کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے طالبان کی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ فروری 2020 میں دوحہ معاہدے کے مذاکرات کے دوران  جو کہ امریکہ کے ساتھ طے پا رہا تھا، طالبان کہہ رہے تھے کہ وہ خواتین کو شرعی قوانین کے مطابق کام کرنے کی  اجازت دیں گے لیکن انہوں نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کیسے خواتین کو اجازت دیں گے۔ لیکن جب مئی کے مہینے سے طالبان نے جارحانہ اقدامات شروع کیے ہیں تب سے خواتین کے لیے بہت سختی دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ خواتین کو برقعے اور محرم کے بغیر باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ خواتین کو  ان دفتروں میں کام کر نے کی اجازت بھی نہیں دیتے جہاں مرد بھی کام کرتے ہوں۔‘

یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خواتین کو ہر شعبے میں کام کرنے کی اجازت گی۔

سونیا نے مزید بتایا ’ہرات کو دیکھیں، جب طالبان نے ہرات پر قبضہ کیا، جو افغانستان کے مغرب میں ایک بڑا شہر ہے۔ قبضے کے اگلے دن طالبان یونیورسٹی کے گیٹ پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے خواتین کو گھر واپس بھیج دیا۔ کابل میں بھی ہم نے طالبان کے قبضے کے بعد ایسا ہی دیکھا۔خواتین صحافی جو طلوع نیوز میں کام کرتی تھی جو ایک بڑا نجی نیوز چینل ہے، طالبان نے ان خواتین کو وہاں جانے سے روک دیا۔ یہ سب اقدامات بہت اچھے اشارے نہیں دیتے۔ جس سے لگتا ہے کہ وہ خواتین کو معاشرتی زندگی میں اپنا حصہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے خاص طور پر شہری علاقوں میں۔‘

سونیا غزالی نے مزید کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ طالبان ہمیں دوبارہ نہیں بلائیں گے لیکن وہ ابھی کافی صحافیوں کو آنے کی اجازت دی رہے ہیں۔ ہمارے کچھ ساتھی اب بھی وہاں کام کر رہے ہیں۔  ہم کوشش کریں گے کہ ہم جائیں اور دیگر صحافیوں کی طرح وہاں کام کریں۔ کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ  وہاں کیا ہو رہا ہے اس کو رپورٹ کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا