طالبان کے افغانستان میں صحافتی مشکلات

صحافیوں کو تو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بار بار کام کرنے سے روکا جا رہا ہے لیکن ان کے کام اور ویڈیوز کن خدشات کی وجہ سے ڈیلیٹ کی جا رہیں؟

افغانستان صحافتی آزادیوں کے اعتبار سے کوئی اچھا مقام پہلے ہی نہیں رکھتا۔ 27 اپریل 2008 کو کابل میں فوجی پریڈ پر حملے کے دوران ایک افغان صحافی کوریج میں مصروف (اے ایف پی فائل فوٹو)

‎طالبان کے افغانستان میں براستہ طورخم داخل ہوتے وقت یہ بات ذہن نشین کر لی تھی کہ ’وار زون‘ کی رپورٹنگ میں کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ لیکن ٹی وی کوریج دیکھتے ہوئے یہ بھی ذہن میں تھا کہ شاید طالبان کے آنے کے بعد حالات بہتر ہو گئے ہوں۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی پریس کانفرنسز اور انٹرویوز کے علاوہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر درجن بھر تجزیہ کار ہمیں دن رات یہ رٹ لگاتے نظر آئے کہ طالبان اب واقعی بدل چکے ہیں۔ میرے ذہن میں تاہم ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ کیا طالبان صحافیوں کو کام کرنے کی آزادی جیسے معاملات میں بھی اپنا ماضی بھلا چکے ہیں؟

‎اسی کھوج میں جب افغانستان کا سفر شروع کیا تو طورخم سے جلال آباد پانچ چیک پوسٹس پر موجود طالبان کے رویے سے لگا کہ یہ تو واقعی بدل چکے ہیں۔ جلال آباد میں دن بھر کی کوریج کے بعد پاکستانی قونصل جنرل عابداللہ خان سے ملاقات کے لیے پہنچے تو قونصل خانے کے باہر طالبان نے ہمیں ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد جانے دیا۔

گاڑی سے اترتے ہی بغیر کچھ سوچے سمجھے وہاں موجود بکتربند گاڑی کے ساتھ ویڈیو بنا کر آگے بڑھا ہی تھا کہ آواز آئی ’دلتہ راشہ عکس دے ولے واغستو؟ (ادھر آؤ ویڈیو کیوں بنائی؟)‘ گرج دار آواز میں چلاتے ہوئے مجھے وہاں سکیورٹی پر مامور طالب نے کہا کہ ’ویڈیو ڈیلیٹ کرو۔‘ میرے اس جواب پر کہ میں صحافی ہوں وہ چلایا کہ کیا ’آپ جو بھی ہو، کیا کبھی کسی صحابی نے تصویر کھنچوائی ہے؟‘

اتنے میں ہمارے ساتھ موجود سینیئر صحافی طالبان سے الجھ پڑے۔ حالات مزید کشیدہ ہوئے تو اسی طالب نے دوسرے کو آواز دی کہ لاؤ میری بندوق، موقع کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے ہمارے ساتھ موجود ایک اور سینیئر صحافی درمیان میں آئے اور طالب کمانڈر سے درخواست کی کہ ’ہم مہمان ہیں غصہ جانے دیں۔‘ خیر بڑی مشکل سے صورت حال قابو میں آئی۔

‎اگلی صبح کابل روانہ ہوئے تو اتنا اندازہ ہوچکا تھا کہ کوریج کرتے ہوئے اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کر لی کہ شاید اکثر طالبان بدل گئے ہوں لیکن تمام نہیں۔ کابل میں پہلے دو دنوں میں طالبان نے دو تین جگہوں پر کام کرنے سے روکا تو تنگ آ کر وزارت اطلاعات کا رخ کیا تاکہ کسی سے ملاقات کر کے کوئی تحریری اجازت نامہ لے لیں ورنہ اس ماحول میں روزانہ ایک گھنٹے کا ’شو‘ ریکارڈ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔

وزارت اطلاعات میں طالبان کے تاجک رہنما مفتی انعام اللہ سمنگانی سے پہلی اور بغیر کسی ریفرنس کے ملاقات ہوئی جو اردو بھی انتہائی روانی اور شائستگی سے بول لیتے ہیں۔ وہیں ذبیح اللہ مجاہد کے دستخطوں سے کام کرنے کا باقاعدہ اجازت نامہ جاری ہوا، جو ملتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ اب کوئی بھی ہمیں کام کرنے سے نہیں روک سکے گا۔۔۔

‎اگلی صبح کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشل ائیرپورٹ پہنچا جہاں ہر طرف افراتفری اور ہزاروں بچے، مائیں، بہنیں اور بزرگ اس انتظار میں بیٹھے ملے کہ کب امریکی فوجی ایئرپورٹ کا دروازہ کھولیں اور یہ لوگ جہاز میں بیٹھ کر افغانستان سے ہزاروں میل دور بھاگ جائیں۔

یہاں ابھی کیمرہ لگا کر بولنا شروع کیا ہی تھا کہ فائرنگ کی آواز گونجی، دو تین مرتبہ کیمرہ مین کو دوبارہ شروع کرنے کو کہا تو اندازہ ہوا کہ یہاں وقفے وقفے سے ہونے والی ہوائی فائرنگ رکنے کا نام نہیں لے گی اس لیے ریکارڈنگ کرلی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎دوبارہ ریکارڈنگ شروع کی تو چند منٹ بعد ایک طالبان کمانڈر آئے اور کیمرہ بند کروا کے پوچھا: ’آپ کون ہیں اور کس کی اجازت سے ریکارڈنگ کر رہے ہیں؟‘ ‎میں نے ذبیح اللہ مجاہد کا تحریری اجازت نامہ دکھاتے ہوئے کہا کہ مجھے کام کرنے کی اجازت ہے۔ جواب ملا نہیں، آپ کو 313 بدری بریگیڈ (طالبان کا ایک جنگجو دھڑا) کے انچارج سے اجازت لینی چاہیے۔

اسی دوران مجھے ائیرپورٹ کے اندر لے جا کر چار پانچ جوانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جس میں سے کرسی پر بیٹھے سینیئر کمانڈر نے اجازت نامہ پڑھ کر وائرلیس پر کسی سے بات کی اور مجھے انتظار کرنے کو کہا۔

مجھ سے بار بار یہ استفسار ہوتا رہا کہ آپ نے بغیر اجازت یہاں فلمنگ کیوں کی۔ میرا جواب یہی رہا کہ میرے پاس تو تحریری اجازت نامہ موجود ہے۔ میرے اور ادارے کے بارے میں جاننے کے بعد بتایا گیا کہ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آپ نے بغیر اجازت فلمنگ کی تو ہم نے کیا کرنا ہے۔

تقریبا 25 منٹ پوچھ گچھ اور حراست میں رکھنے کے بعد وائرلیس پر اطلاع ملی کہ اسے اجازت نہیں دیں۔ میں بولا ٹھیک ہے اجازت نہ دیں میں چلا جاتا ہوں تو جواب ملا ابھی رکو۔ کچھ مزید انتظار کے بعد فون میں موجود میری ویڈیو چیک کی گئیں اور ڈیلیٹ کروانے کے بعد مجھے جانے دیا گیا۔

‎لیکن اس شرط پر کہ ایئرپورٹ کی مزید کوریج نہیں کروں گا۔ البتہ بدری بریگیڈ کے ایک کمانڈر کو جسے شاید یہ محسوس ہوا کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا جاتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ سب کچھ ہم آپ کی سکیورٹی کے لیے کر رہے ہیں۔

باہر نکل کر ذرا فاصلے پر دوبارہ کام کا آغاز کیا ہی تھا کہ ایک دفعہ پھر طالبان کی گاڑی آگئی۔ ایک کمانڈر صاحب اترے پوچھ گچھ شروع کی میں نے اجازت نامہ دکھایا تو بولے جتنا کر لیا ہے ٹھیک ہے اب یہاں سے چلے جاؤ۔

اس سے پہلے کہ مجھے کام کرنے سے تیسری دفعہ روکا جاتا اور معاملات بگڑتے، وہاں سے جانے میں ہی خیریت جانی۔ لیکن یہ سوال ذہن میں گھومتا رہا کہ صحافیوں کو تو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بار بار کام کرنے سے روکا جا رہا ہے لیکن ان کے کام اور ویڈیوز کن خدشات کی وجہ سے ڈیلیٹ کی جا رہی ہیں۔

ان واقعات کے بعد میڈیا کو ڈیل کرنے والے طالبان کے سینیئر اہلکاروں سے بات کی تو جواب ملا کہ ایسی شکایات ان کے پاس موجود ہیں لیکن ابھی ہمارے شروع کے دن ہیں، صحافیوں کے لیے حالات بہتر ہو جائیں گے۔

حالات بہتر ہونے کی آس لگائے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ افغانستان آنے سے پہلے تو ذہن میں صرف یہ سوال تھا کہ کیا طالبان بدل گئے ہیں؟ لیکن اب ساتھ میں یہ بھی کہ کم از کم صحافیوں کو کام کرنے کی آزادی دینے کی حد تک کیا طالبان بدلنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں؟

ساتھ میں بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے والے افغان صحافیوں کو واپس لانے ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے طالبان کو کیا کرنا چاہیے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر