افغانستان میں پاکستانی طلبہ: ’ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن سکالرشپ بند ہوگئی ‘

افغانستان میں سکالر شپ پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ واپس آنے کے بعد مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں سرکاری میڈیکل کالجز میں ایڈجسٹ کیا جائے۔

خوست میں شیخ زید میڈیکل کالج کی عمارت  (فوٹو: ایس زدران/ وکی پیڈیا)

پشاور کے محمد اسلم ( فرضی نام) چار سال پہلے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے افغانستان گئے تھے، تاہم کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ان کے ڈاکٹر بننے کا خواب ٹوٹ گیا ہے لیکن وہ اب بھی پرامید ہیں۔

اسلم  کو چار سال پہلے ایک دوست کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ افغانستان کی سابق حکومت خیبر پختونخوا ور قبائلی اضلاع کے طلبہ کو افغانستان کے میڈیکل کالجز میں سکالرشپ پر تعلیم دیتی ہے۔

پھر کیا تھا، اسلم نے بھی اس سکالرشپ کے لیے اپلائی کیا اور منتخب ہو گئے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ افغان صوبے خوست میں شیخ زید میڈیکل کالج میں ایم ڈی کی تعلیم سکالرشپ پر حاصل کر رہے تھے، جس میں ٹیوشن فیس، کتابوں، ہاسٹل اور دیگر تعلیمی اخراجات افغانستان کی سابق حکومت برداشت کرتی تھی۔

اسلم کے مطابق ان کو پریشانی کا سامنا تب ہوا جب پچھلے سال جون میں پہلے کرونا (کورونا) کی وجہ سے اور پھر طالبان کے آنے کے بعد میڈیکل کالج بند کر دیے گئے۔ یوں ان کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں میڈیکل کالج تاحال بند ہیں اور کالج انتظامیہ نے بتایا ہے کہ کم فنڈنگ کی وجہ سے تدریسی عمل شروع ہونے کی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔

افغانستان کے مختلف میڈیکل کالجز میں اسلم کے مطابق 108 کے لگ بھگ پاکستانی طلبہ سکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن اب وہ تمام واپس لوٹ گئے ہیں اور پاکستانی حکومت سے اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔

طالبان کے کابل پر کںٹرول کے بعد افغانستان کو مختلف شعبوں میں فنڈز کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ امریکہ نے فنڈز منجمد کر رکھے ہیں۔

حال ہی میں امریکی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کو کچھ فنڈز جاری کیے جائیں جس کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔

ایک اور متاثرہ طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ انہوں نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کو اس حوالے سے ایک خط لکھا تھا جس پر پہلے تو سنجیدگی نہیں دکھائی گئی لیکن بعد میں ان طلبہ کے لیے نیشنل ایکولینسی بورڈ کے نام سے ایک ٹیسٹ کا اعلان کیا گیا۔

انہوں نے بتایا یہ ٹیسٹ طلبہ کو پاکستانی میڈیکل کالجز میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے تھا لیکن پی ایم سی نے واضح نہیں کیا کہ انہیں کون سے کالجز میں داخلہ ملے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 44 طلبہ اس ٹیسٹ میں کامیاب ہوئے لیکن انہیں ایڈجسٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ انہیں ذاتی خرچے پر کسی نجی میڈیکل کالج میں سیٹ ڈھونڈنے کا کہا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے الزام عائد کیا کہ افغانستان سے آئے طالب علموں کو ایک سال پیچھے کی کلاسز کا اہل قرار دیا گیا ہے جس سے ان کا قیمتی سال ضائع ہو سکتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پی ایم سی نجی میڈیکل کالجز سے پوچھے کہ ان کے پاس کتنی نشستیں خالی ہیں تاکہ مذکورہ طلبہ کو ایڈجسٹ کیا جا سکے۔

ان طلبہ کے مسئلے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے افغانستان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے طالبان کے ایک اور ترجمان بلال کریمی سے رابطہ کیا لیکن ان کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔

پاکستان میڈیکل کمیشن کے ترجمان اظہر سے معاملے پر ردعمل جاننے کے لیے وٹس ایپ پر پیغامات بھیجے گئے لیکن انوں نے بھی رپورٹ کے فائل کیے جانے تک کوئی جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس