میڈیکل کالجوں کے داخلوں میں ’بے ضابطگیاں‘، مدعی ملک چھوڑ گئیں

پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت نجی میڈیکل کالجوں کے داخلوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے کیس کی مرکزی مدعی لائبہ جاوید کے والدین کا کہنا ہے کہ انصاف میں تاخیر سے مایوس ہو کر وہ ملک چھوڑ گئی ہیں۔

27 اپریل کو ہونے والی سماعت میں پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل کمیشن  کی جانب سے نجی میڈیکل  کالجوں کے داخلوں کی منسوخی کے اقدام پر برہمی کا اظہار کیا (اے ایف پی فائل)

پشاور ہائی کورٹ میں نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے داخلوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف ایک کیس کی مرکزی مدعی لائبہ جاوید انصاف ملنے میں تاخیر پر دلبرداشہ ہونے سے ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔

کیس کی 27 اپریل کو ہونے والی سماعت میں پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی جانب سے نجی میڈیکل کالجوں کے داخلوں کی منسوخی کے اقدام پر برہمی کا اظہار کیا اور پی ایم سی کو اس معاملے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔

اعلیٰ عدالت میں ایک طالبہ لائبہ جاوید کی سربراہی میں 30 سے زائد طلبہ نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف سات جنوری کو ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی، جس میں نجی کالجوں کے طلبہ کو انٹرویو میں 20 فیصد اضافی نمبر دینے کے خلاف شکایات تھیں۔

کیس کی سماعت کے دوران قومی احستاب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پچھلی سماعت کے دوران عدالت کے حکم پر معاملے کی چھان بین کے نتیجے میں تیار ہونے والی رپورٹس بھی پیش کیں۔

اس کیس میں متاثرہ طالب علموں کی نمائندگی کرنے والے ہائی کورٹ وکیل وسیم الدین خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کیس کافی تاخیر کا شکار ہو گیا تھا لیکن پھر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک نجی میڈیکل کالج کا عملہ ایک طالب علم سے داخلے کے لیے رشوت کا مطالبہ کر رہا تھا۔

’جب اس ویڈیو کو عدالت میں پیش کیا گیا تو چیف جسٹس نے طالب علموں کے مستقبل کی خاطر متعلقہ کالجوں کے خلاف نوٹس جاری کیا۔

اس سال پہلی مرتبہ ہر نجی میڈیکل کالج کو انفرادی طور پر داخلے کرنے کا اختیار ملا اور یہیں سے گڑ بڑ شروع ہوئی۔ اس سے قبل تمام نجی میڈیکل کالجوں کے داخلے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی وساطت سے ہوتے تھے۔‘

پشاور ہائی کورٹ نے اس سے قبل سماعت کے دوران ایڈمشن ریگولیشن 21-2020کے جز نمبر 18 کا نوٹس لیا تھا جس کے مطابق نجی میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے طالب علموں کو انٹرویو کے ذریعے 20 فیصد اضافی نمبر دیے جاتے ہیں۔

میڈیکل کالجوں میں داخلے کی تاریخ 19 جنوری تھی اور متاثرہ طالبہ لائبہ جاوید نے اس سے قبل ہی عدالت سے ایڈمشن ریگولیشن کے اسی حصے کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی تھی۔

واضح رہے کہ عدالت کے حکم پر نیب کی جانب سے جمع کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال ریگولیشن 20-2019 میں نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں نے اپنی فیسوں میں 44 فیصد اضافہ کیا تھا۔

ایڈوکیٹ وسیم الدین نے بتایا کہ طلبہ سے پانچ سال کی فیس  یکمشت وصول کی جاتی تھی، جس کا ادا کرنا ہر طالب علم کے لیے آسان نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم کے مطابق جب انہوں نے درخواست کی کہ وہ صرف ایک سال کی فیس ادا کرکے باقی چار سال کے لیے اپنی جائیداد گروی رکھ لے گا تو نجی کالج نے یہ پیشکش مسترد کرتے ہوئے انہیں  پانچ سال کی فیس یکمشت ادا کرنے کی صورت میں ہی داخلے کی شرط رکھی۔

مرکزی مدعی دل برداشتہ

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے کیس کی ایک مرکزی مدعی لائبہ جاوید سے ان کے آبائی شہر مردان میں رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ نظام اور انصاف میں تاخیر سے مایوس ہو کر بیرون ملک جانے پر مجبور ہوئیں۔

ان کے والد محمد جاوید نے کہا کہ وہ بیٹی کی ناکامی اور داخلے میں ہونے والی زیادتی کی کرب سے ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔

انہوں نے کہا،’ہمیں اس پورے واقعے میں پاکستان میڈیکل کمیشن یا کالج کسی سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔ اب میری بیٹی ان زیادتیوں کی وجہ سے پردیس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی ہے اور افسوس یہ ہے کہ پی ایم سی یا کسی نے ہمیں انصاف فراہم نہیں کیا۔‘

لائبہ کی والدہ، جو اس ٹیلیفونک بات چیت کے دوران مسلسل روئے جارہی تھیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بیٹی سکول اور کالج میں ہمیشہ اول پوزیشن لیتی رہی ہیں اور ڈاکٹر بننا ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔

انہوں نے کہا: ’مفلوج نظام، رشوت خوری اور تعلیم کو کاروبار بنانے کی وجہ سے میری بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلہ لینے سے محروم کر دیا گیا۔ اگر اسے یہیں داخلہ مل جاتا تو اسے بیرون ملک جا کر پڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پیٹییش میں شامل ایک طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بے ضابطگیوں میں ملوث کالج اب بعض طلبہ کو مختلف ذرائع سے پیغامات بھیج کر انہیں کیس واپس لینے کی شرط پر داخلہ دلوانے کی پیشکش کر رہے ہیں۔

طالب علم نے بتایا کہ میڈیکل کالجوں میں اضافی نمبروں کے ذریعے داخلے دلوانے کی آڑ میں لاکھوں روپے کی رشوت وصول کی جاتی ہے، جو کہ کم از کم 25 لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ تک ہے۔

ہائی کورٹ میں 27 اپریل کی سماعت کے بعد آج (29 اپریل) متعلقہ کالجوں میں سے چند ایک نے اپنے داخلوں کے دوبارہ اشتہار دیے ہیں۔

یہ اقدام اس عدالتی نوٹس کے نتیجے میں سامنے آیا ہے جس کے مطابق، پی ایم سی نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بےضابطگیاں ہوئی ہیں، لہذا متعلقہ کالج ایڈمشن کے دوبارہ اشتہار دیں گے۔

پشاور ہائی کورٹ میں اس کیس کی اگلی سماعت چھ مئی کو ہے، جس میں پی ایم سی کے نائب صدر کو خاص طور پر پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان