لوگ شادیاں دیر سے کیوں کر رہے ہیں؟

شادی دیر سے کرنا یا نہ کرنا دنیا کے بیشتر ممالک میں معمول (نیو نارمل) کیوں بنتا جا رہا ہے؟

ایک رپورٹ کے مطابق 1951 میں پاکستان میں مردوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر 22 سال تھی جو 1990 میں بڑھ کر ساڑھے 26 سال ہو گئی (اے ایف پی فائل فوٹو)

شادی دیر سے کرنا یا نہ کرنا دنیا کے بیشتر ممالک میں معمول (نیو نارمل) کیوں بنتا جا رہا ہے؟

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا انسانوں کی فطری ضروریات وہ نہیں رہیں جو ازل سے تھیں یا انھوں نے اپنی بائیو کیمسٹری کو دھوکہ دینا سیکھ لیا ہے؟ 

بیالوجی نہیں بدلی۔ بیالوجی آج بھی یہی کہتی ہے کہ ہم دنیا میں اگلی نسل کو پیدا کرنے کے لیے آئے ہیں۔ سوشیالوجی کے زاویے سے دیکھیں تو انسان ’سماجی جانور‘ کی شکل میں نظر آئے گا۔

تو جب ازل سے ابد تک سبھی یکساں ہے تو یہ یک دم سے 21 ویں صدی کیوں بدل گئی؟ ہم نے بہت اکیلے رہنے کو آزادی سمجھنا کب سے سیکھ لیا؟ ہمیں کب سے احساسات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونے لگی؟

اکیلے رہنے کی عادت شوق سے ضرورت تک کا سفر کیوں طے کرتی جا رہی ہے؟ کیوں کچھ لوگ معاشرے اور قدرت کے برعکس جا رہے ہیں۔

بعض مغربی ممالک میں بنا شادی کے جوڑے ساتھ رہنا پسند کرنے لگے ہیں، جبکہ کچھ لوگ بچے نہ ہونے کے کلچر کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔

21 ویں صدی ان خواتین کے لیے بھی مددگار رہی ہے جو اس ڈر سے بچے پیدا نہیں کر رہیں کہ کہیں ان کا جسم نہ بگڑ جائے۔

خواتین بچوں سے بھی بھاگ رہی ہیں اور کسی حد تک مردوں سی بھی جبکہ مرد حضرات شادی سے بھاگ رہے ہیں نہ کہ خواتین سے۔

مطلب آخر یہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں؟ معیوب باتیں بہت عام ہوتی جا رہی ہیں۔ میڈکل سائنس بارہا تصدیق کرتی نظر آتی ہے کہ بچے پیدا کرنے سے خواتین کا جسم خراب نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان کے لیے ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے۔ بریسٹ فیڈنگ چھاتی کے کینسر سمیت بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔

جب سب پہلے جیسا ہے تو اچانک لوگوں نے ہر چیز کا نیا مطلب کیوں نکال لیا؟ حالانکہ اتنا علم حاصل کرنے اور ترقی کرنے کے بعد تو ہمیں قدرت کے اور بھی قریب ہو جانا چاہیے تھا نہ کہ دور۔

تو چلیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر ایسا ہو کیوں رہا ہے؟ 2012 میں ہونے والی پیو ریسرچ کے مطابق 25 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں 20 فیصد غیر شادی شدہ تھے جبکہ 1960 میں یہی تعداد اس سے نصف یعنی صرف 10 فیصد تھی اور ان میں سے بیشتر لوگ 40 سال کی عمرمیں پہنچ کر رشتۂ ازواج میں منسلک ہو گئے تھے۔

کچھ مغربی ممالک بنا شادی کے بچے پیدا کرنے کے ٹرینڈ کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ 2018 میں کی گئی امریکی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق مردوں میں شادی کی عمومی عمر30 سال جبکہ خواتین میں شادی کی عمومی عمر28 سال بتائی گئی ہے۔ تاہم ’اربن انسٹیٹیوٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق کچھ لوگ 40 سال کی عمر تک کنوارا رہنا پسند کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس موضوع پر تحقیق کی قلت ہے۔ تاہم ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں بھی شادی کی عمر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق 1951 میں پاکستان میں مردوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر 22 سال تھی، جو 1990 میں بڑھ کر ساڑھے 26 سال ہو گئی۔

اسی طرح عورتوں میں شادی کی عمر اوسط عمر 17 برس سے بڑھ کر پونے 22 سال ہو گئی۔

اس کی ایک بڑی وجہ اپنے کیریئر پر زیادہ فوکس رہنا اور کام کی زیادتی ہے جس کی وجہ سے شادی کا معاملہ کہیں دھندلا جاتا ہے۔

کچھ لوگ شادی کو مالی بوجھ سمجھتے ہیں اور اس معاشی خرچے کی زیادتی سے بچتے ہیں۔ ایسے لوگ شادی کر بھی لیں تو دونوں مل کر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔

کچھ لوگ شادی اس لیے بھی نہیں کرتے کہ وہ اپنے کسی پچھلے تجربے کی وجہ سے دل برداشتہ ہوتے ہیں، جیسے کہ شادی یا منگنی کا ٹوٹ جانا، تعلقات میں دھوکہ کھانا وغیرہ۔ جبکہ کچھ لوگ ٹھکرا دیے جانے کے ڈر اور دوبارہ سنگل ہو جانے کے ڈرسے بھی شادی نہیں کرتے۔

چونکہ شادی خوش رہنے کی کوئی ضمانت تو ہے نہیں، اس لیے بھی کچھ لوگ رسک لینے سے ڈرتے ہیں جبکہ وہ اپنی سنگل لائف آزادی کے ساتھ گزار رہے ہوتے ہیں جس پر سمجھوتہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

 ہم بہت سے سنگل اور بنا بچوں کے بھی لوگوں کو خوش دیکھتے ہیں۔ لندن سکول آف اکنامکس کے بی ہیوریئل سائنس کے پروفیسرپال ڈولن اپنی ایک کتاب ’ہیپی ایور افٹر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ مرد ہیں تو شاید آپ کو شادی کر لینی چاہیے لیکن اگر آپ خاتون ہیں تو اس پر زیادہ مت سوچیں۔‘

انہوں نے یہ بات اتنے اعتماد کے ساتھ ’امیریکن ٹائم یوزر سروے‘ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی تحقیق کرنے کے بعد کی تھی۔

اس تحقیقی مطالعے میں بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر تحقیق کی گئی، جن میں شادی شدہ، غیرشادی شدہ، طلاق یافتہ، بیوہ اور کنوارے افراد شامل تھے۔

پال ڈولن کو اس تحقیق سے پتہ چلا کہ ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ خوش وہ خواتین ہیں جو غیر شادی شدہ اور بچوں کے بغیر ہیں۔ ان خواتین میں لمبی عمر کی شرح بھی باقی خواتین کی نسبت زیادہ بتائی گئی۔

لہٰذا دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد شادی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں یا ان کو بچوں کی زیادہ طلب نہیں رہی۔

شادی کے اس خوف کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ لوگ کسی دوسرے انسان پر انحصار کرنے سے ڈرتے ہیں۔ خاص طور پراپنی جذباتی ضروریات یا جذبات کے اظہار کے لیے۔ جیسا کہ اپنے ہم سفر پر کسی بھی طرح کا انحصار ایک فطری عمل ہے۔

مگر ضرورت سے زیادہ انحصار یقیناً غیرمناسب ہے اور جن لوگوں کو زیادہ انحصار کا خدشہ ہوتا ہے وہ شادی کے خیال سے ہی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

تاہم جن لوگوں کا بچپن پیچیدگیوں سے بھرا ہوتا ہے، وہ اس زمرے میں زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے ماضی میں جذباتی طور پرعدم تحفظ اور عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں معاشی، معاشرتی، جذباتی اور نفسیاتی لحاظ سے اپنے ساتھی پر انحصار کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسا کر کے یہ لوگ تلخ تجربات کو دہرانا نہیں چاہتے۔

علاوہ ازیں انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کا ساتھی توقعات پر پورا نہ اترا تو وہ نہ صرف مایوسی کا شکار ہو جائیں گے بلکہ ان کو اپنی جذباتی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھی کی ضروریات پر توجہ دینی ہو گی۔

جذباتی اور نفسیاتی طور پر قدرے حساس لوگ زیادہ تر کم لوگوں میں یا تنہا رہنا پسند کرتے ہیں، اور یہ لوگوں کے کم گہراؤ کو کم شور اور کم مشکلات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس بےربطگی کی بنیادی وجہ دل کو ٹھیس پہنچانے سے بچانا ہے۔

وہ خوش رہنے کے لیے کسی ایسے انسان پر انحصار نہیں کرنا چاہتے جس کو کھو دینے کا خدشہ ہو۔ یہ لوگ اپنی آزادی اور ذاتی زندگی پر بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

بہت ذمہ دار اور خود مختار ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ زندگی کو سہل رکھنا چاہتے ہیں اور خواب و خیال کی دنیا میں نہیں رہتے۔

مزید یہ کہ ان لوگوں کی ریلیشن شپ میں رہنے کی تعریف اور معیار قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی رشتے میں جس چیز کا سب سے پہلے تقاضا کرتے ہیں وہ ’مناسب فاصلہ‘ ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں مناسب فاصلہ رکھنے سے باقی تمام چیزیں خود بخود آ جاتی ہیں، جیسا کہ عزت، قدر، خیال، توجہ اور محبت۔ درحقیقت محبت ان کی فہرست میں سب سے آخر میں آتی ہے۔

ان کی عملی سوچ باقی چیزوں کوپورا کرنے کا تقاضا پہلے کرتی ہے، لہٰذا ایسے ہم خیال انسان کا ملنا بھی قدرے مشکل ہوتا ہے اور اس پر تو وہ بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ایسا انسان ان کو مل جاتا ہے چاہے 35 یا 40 سال کی عمر میں تو یہ لوگ شادی کر لیتے ہیں، لیکن اگر نہیں ملتا تو یہ غیر شادی شدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

محتاط چلنے والے یہ لوگ اپنے ساتھی کا انتخاب بہت پھونک پھونک کر اور دیکھ بھال کر کرتے ہیں، چاہے تھوڑا دیر سے ہی سہی کیونکہ شادی ان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

وہ شادی صرف شادی کی غرض سے نہیں کرتے بلکہ شادی ان کے لیے ایک پورے ادارے کا درجہ رکھتی ہے۔

انحصار بالخصوص جذباتی انحصار کی بات کریں تو اس کے تقاضے مرد و خواتین دونوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ عمومی طور پرخواتین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے من پسند شخص کی نظرمیں خوبصورت نظر آئیں، آنکھوں سے دل تک اس کی توجہ کا مرکز ہیں، اور اپنے اس اہم ترین شخص کا ٹھیک سے خیال رکھ پا رہی ہوں۔

خواتین اس شخص کو کھو دینے یا اس کی دلچسپی کم ہو جانے کے ڈر کے تحت بھی ایسا کرتی ہیں۔ حالانکہ خواتین کی خود بھی یہی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں، مگر خواتین مردوں کی نسبتاً اس قسم کے خدشات کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔

دوسری جانب مرد جذباتی انحصار اور رجحان کو ذمہ داری کے زمرے میں لیتے ہیں کہ کیا وہ ذمہ دار شوہر ہیں؟ اور اس میں سبھی کچھ آ جاتا ہے۔

خاص طور پراس میں اپنی ہم سفر کی پشت پناہی کرنا اور اس کی حفاظت کرنا شامل ہیں۔ اس پشت پناہی میں صرف پروفیشنل سپورٹ ہی شامل نہیں اور یہاں حفاظت سے مراد صرف دوسرے مردوں سے نہیں بلکہ اس میں سبھی کچھ شامل ہے۔ مجموعی طور پر مرد چیزوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر دیکھتے ہیں جبکہ خواتین کا اپنا مخصوص دائرۂ کار ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ