بھارت کا ایس 400 میزائل نظام پاکستان کے لیے کتنا خطرناک ہے؟

یہ نظام ایک قسم کی چھتری ہے جو اسے دشمن کی طرف سے کسی بھی قسم کے فضائی خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ آپ نے اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ یا امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کا ذکر سنا ہو گا، یہ نظام انہی کی طرح کام کرتا ہے۔

ایس 400 میزائل دفاعی نظام روس کے ریڈ سکوائر میں نو مئی 2021 کو ایک پریڈ کے دوران (اے ایف پی)

دو دن قبل بھارتی میڈیا نے خبر دی کہ بھارت نے روسی ساختہ جدید ترین ایس 400 ٹرائمف میزائل سسٹم، جس کی پہلی قسط اس ماہ کے اوائل میں وصول ہوئی تھی، پاکستان سے ملحقہ ریاست پنجاب میں نصب کرنا شروع کر دیا ہے۔

بھارت کو امریکی مخالفت کے باوجود اس میزائل نظام کی فراہمی دسمبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہو گئی تھی اور بھارت نے یہ اعلان اس وقت کیا تھا جب روسی صدر ولادی میر پوتن نئی دہلی میں موجود تھے۔

یہ نظام ایک قسم کی چھتری کی طرح کام کرتا ہے جو اسے دشمن کی طرف سے کسی بھی قسم کے فضائی خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ آپ نے اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ یا امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کا ذکر سنا ہو گا، یہ نظام انہی کی طرح کام کرتا ہے، بلکہ جیسا کہ نیچے چل کر تفصیل آئے گی، کئی لحاظ سے ان سے بہتر ہے۔

ایس 400 میزائل نظام کی خصوصیات کیا ہیں؟

ایس 400 ٹرائمف زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے جو 2007 سے روس کے زیرِ استعمال ہے۔ یہ 400 کلومیٹر دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

عسکری اور تزویراتی (سٹریٹیجک) امور پر نظر رکھنے والے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک دا سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کے مطابق یہ امریکی پیٹریاٹ میزائل نظام کا متبادل ہے۔ اسے روسی دفاعی ادارے الماز سینٹرل ڈیزائن بیورو نے تیار کیا ہے جو 1993 سے اس نظام پر کام کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے یہی ادارہ ایس 200 اور ایس 300 بنا چکا ہے، اس طرح ایس 400 کو اس میزائل سسٹم کی چوتھی جنریشن کہا جا سکتا ہے اور اسے طیاروں، ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل سمیت ہر قسم کے فضائی حملوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ میزائل نظام 250 کلومیٹر سے 400 کلومیٹر کے علاقے میں آنے والے فضائی حملوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ اس نظام میں پانچ قسم کے میزائل نصب ہیں جو ہدف کی نوعیت کے مطابق فائر کر کے اسے ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

روس اس سے قبل یہ میزائل نظام چین اور ترکی کو بیچ چکا ہے۔ بھارت نے روس کے ساتھ 2018 میں ایک معاہدے کے تحت 5.43 ارب ڈالر مالیت سے یہ نظام خریدا تھا اور اسے تمام میزائل 2023 تک فراہم کر دیے جائیں گے۔

چین کے پاس یہ میزائل نظام پہلے سے موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے دو نظام بھارتی ریاستوں لداخ اور اروناچل پردیش کی سرحد کے قریب نصب کیے ہیں جب کہ ایک نظام تائیوان کے قریب لگایا ہے۔

امریکہ کے پاس ایس 400 ہی کی طرح کے دو دفاعی نظام موجود ہیں، ایک تھاڈ THAAD  ہے یعنی Terminal High Altitude Area Defense، جب کہ اس کے علاوہ اس نے پیٹریاٹ ایڈوانسڈ کیپیبلٹی 3 نامی ایک اور نظام بھی تیار کر رکھا ہے۔

امریکہ نے بھارت کو روسی نظام خریدنے سے باز رکھنے کے لیے اسے تھاڈ یا پیٹریاٹ میں سے کوئی ایک نظام بیچنے کی پیشکش کی تھی مگر بھارت نے روسی نظام کو ترجیح دی۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر CAATSA  ایکٹ کے تحت پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔

تھاڈ میزائل نظام

اخبار فائنینشل ایکسپریس کے مطابق ایس 400 کو امریکی میزائل نظام تھاڈ پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ تھاڈ ایک جگہ فٹ کیا جاتا ہے جب کہ ایس 400 کو ہیوی ڈیوٹی 8 بائی 8 ٹرکس پر نصب کیا جاتا ہے جنہیں چلا کر کسی بھی علاقے میں لے جایا جا سکتا ہے۔ چوں کہ یہ سارا نظام موبائل ہے اس لیے جنگ کے زمانے میں اسے دشمن کی طرف سے آسانی سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اور خطرے کے پیشِ نظر اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اس کے مقابلے پر امریکی تھاڈ نظام صرف طویل مار کرنے والے میزائلوں کے خلاف موثر ہے اور قریب سے فائر ہونے والے میزائلوں کے علاوہ دشمن کے جنگی طیاروں کے خلاف بھی کام نہیں کرتا۔

مزید یہ کہ تھاڈ کی رینج بھی ایس 400 کے مقابلے میں آدھی ہے یعنی 150 سے 200 کلومیٹر۔

ایک اور فرق یہ ہے کہ تھاڈ صرف ایک قسم کا میزائل فائر کر سکتا ہے جب کہ ایس 400 کے پاس کئی اقسام کے میزائل موجود ہیں جنہیں ہدف کی نوعیت کے لحاظ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پیٹریاٹ میزائل سسٹم

پیٹریاٹ کی رینج تھاڈ سے بھی محدود ہے اور یہ صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے تک میزائل لانچ کر سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں پیٹریاٹ نظام کے موثر پن اور کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ 1991 میں امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ میں پیٹریاٹ نظام استعمال کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے عراق کی طرف سے فائر کیے جانے والے 47 میں سے 45 میزائلوں کو گرنے سے پہلے تباہ کر دیا تھا۔

تاہم بعد میں خود امریکی فوج نے تسلیم کیا کہ اس نظام کی کارکردگی صرف 50 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ اسرائیل سے آئرن ڈوم نامی نظام خریدنے پر غور کر رہا ہے۔

اسرائیلی آئرن ڈوم

آئرن ڈوم کو اسرائیل کی ڈیفنس کمپنی رفائیل نے 2011 میں تیار کیا تھا جب کہ امریکہ نے بھی اس میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ نظام چار کلومیٹر سے لے کر 70 کلومیٹر کے فاصلے سے داغے جانے والے راکٹوں اور میزائلوں کو فضا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رفائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نظام کی کامیابی کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے مگر دیگر ماہرین کے مطابق اصل شرح 80 فیصد کے قریب ہے۔ غزہ کے فلسطینوں کے خلاف جنگ میں حماس کی جانب سے فائر کیے گئے کئی میزائل اسرائیلی علاقوں پر گرے جنہیں یہ نظام روک نہیں سکا تھا۔

رینج کے لحاظ سے ایس 400 کو آئرن ڈوم پر برتری حاصل ہے، جب کہ آئرن ڈوم کے برعکس ایس 400 طیاروں سمیت ہر قسم کے فضائی خطرے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جب کہ آئرن ڈوم صرف راکٹ اور میزائل کے خلاف کارگر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

بین الاقوامی امور کے ماہر رفعت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں ایس 400 نظام کی تنصیب کا یہ مطلب ہے کہ بھارت مستقبل قریب میں کسی جارحیت کی تیاری کر رہا ہے تاکہ پاکستان کی جانب سے کسی جوابی کارروائی کا توڑ کیا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ اور وزیرِ دفاع راج ناتھ کی جانب سے حالیہ دنوں میں جارحانہ بیانات سامنے آئے ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ نئے سال میں پاکستان سے ہونے والے دراندازیوں کا جواب دیا جائے گا۔ تو عین ممکن ہے کہ اس میزائل کی تنصیب اسی پروگرام کا حصہ ہو۔‘

کیا پاکستان بھی ایس 400 خریدنے کی کوشش کر رہا ہے؟

واشنگٹن ڈی سی میں قائم میگزین ’ڈپلومیٹ‘ نے 2017 میں خبر دی تھی کہ پاکستان بھی یہ نظام خریدنے پر غور کر رہا ہے۔ ہم نے یہی سوال رفعت حسین کے سامنے رکھا تو انہیں نے اسے رد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا، ’میرے خیال سے ایسا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی موجود حالات میں پاکستان ایسا سوچ بھی سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ نظام بہت مہنگا ہے اور پاکستان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں، دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر پاکستان نے ایسا کیا تو اسے امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور پاکستان پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کے چکر سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، اس لیے ان حالات میں کسی اور قسم کی پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

رفعت حسین نے مزید کہا کہ ’امریکہ نے بھارت پر بھی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے لیکن بھارت بڑا اور طاقتور ملک ہے، اول تو اس پر پابندیاں لگیں گی نہیں اور اگر لگیں بھی تو وہ ان کا مقابلہ کر سکتا ہے، پاکستان نہیں۔‘

پاکستان اس نظام کا توڑ کیسے کر سکتا ہے؟

سٹاک ہوم کے انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو پیٹر توپیچانوف کہتے ہیں کہ ایس 400 پاکستان کی طرف سے آنے والے ہر قسم کے میزائلوں کا توڑ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ’سنڈے گارڈین‘ اخبار کو بتایا: 

’اگر ایس 400 کو پاکستان کی سرحد کے قریب نصب کیا گیا تو یہ پاکستان کے تمام علاقے کا احاطہ کر سکتا ہے۔ تاہم ایس 400 ہر قسم کے میزائلوں کو روک نہیں سکے گا، جو ممکنہ طور پر پاکستان کی تمام سرحد اور لائن آف کنٹرول کی طرف سے آ رہے ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’روس اور بھارت کے درمیان ایس 400 کا معاہدہ بھارت کے عزائم پر سوال اٹھاتا ہے کہ اس درآمد کردہ میزائل نظام کو کب اور کیسے استعمال کیا جائے گا۔‘ 

دفاعی امور کے ماہر اور پشاور کی روٹس انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ سکالر شمس الزمان نے’پالیسی پرسپیکٹیوز‘ نامی جریدے میں 2018 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ پاکستان بھارت کے میزائل دفاعی نظام کے خلاف کئی اقدامات کر سکتا ہے۔ انہوں نے سائبر حملوں کی مثال دی جن کی مدد سے ریڈار کے نظام کو ناکارہ بنایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے طیارے اور ڈرون تیار کیے جا سکتے ہیں جو ریڈار کو دکھائی ہی نہ دیں۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ متعدد نقلی (decoy) میزائل داغ کر اس میزائل کو مفلوج بنایا جا سکتا ہے، اور جب یہ نظام ان نقلی میزائلوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہو، اس وقت اصل میزائل چھوڑ دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی