عام آدمی پر صرف دو ارب روپے کا بوجھ ڈالا ہے: وزیر خزانہ

حکومتی اندازوں کے مطابق ضمنی مالیاتی بل میں نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں میں چھوٹ ختم ہونے کی صورت میں حکومتی آمدن میں 350 ارب روپے کے اضافے کی امید کی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے جمعرات کو حزب اختلاف کی ہنگامہ آرائی کے دوران مالیاتی (ضمنی) بل 2021 کے ذریعے تقریباً ڈیڑھ سو اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز دی ہے۔

مالیاتی (ضمنی) بل 2021 وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی کے رولز کے معطل ہونے کے بعد پیش کیا۔

ضمنی بل کے پیش کیے جانے کے دوران حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے ایوان میں شدید احتجاج کیا۔

اپوزیشن جماعتوں کے اکثر اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ایوان میں نعرہ بازی کرتے رہے، جب کہ انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق ضمنی مالیاتی بل میں نئے ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں میں چھوٹ ختم ہونے کی صورت میں حکومتی آمدن میں 350 ارب روپے کے اضافے کی امید کی جا رہی ہے۔

ضمنی مالیاتی بل میں درآمد شدہ کھانے پینے کے آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی، بیکری آئٹمز اور برانڈڈ فوڈ آئٹمز  پر بھی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی چھوٹ ختم کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

بل میں توانائی کے شعبے کے لیے درآمد کی جانے والی مشینوں، ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال، بیرون ملک سے منگوائے جانے والے پالتو جانوروں، پرندوں اور انڈوں، اور امپورٹڈ گوشت اور پولٹری آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ واپس لینے جانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔

اسی طرح مذکورہ بل میں موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس اور موبائل فونز پر انکم ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجاویز بھی ہیں۔ 

ضمنی مالیاتی بل2021 میں اس کے علاوہ 850 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اور ڈیوٹی فری شاپس پر پہلی بار 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجاویز بھی موجود ہیں۔ 

ضمنی مالیاتی بل پولٹری کے شعبے میں استعمال ہونے والی مشینری پر ٹیکس سات فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے، اور چاندی اور سونے پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجاویز ہیں۔

اسی طرح کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز بل کا حصہ ہیں۔

اس کے علاوہ ضمنی مالیاتی بل 2021 بیکری، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز میں بریڈ کی تیاری پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجویز ہے جب کہ عام تندوروں پر روٹی اور چپاتی پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رکھنے کی بھی تجویز ہے۔

صدارتی آرڈینسز، گاڑیوں پر ٹیکس

ضمنی مالیاتی بل میں ایک ہزار سی سی طاقت سے زیادہ کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی بھی تجویز ہے۔

ضمنی مالیاتی بل 2021 کے پیش ہونے کے بعد ایوان میں حکومت کی جانب سے آدھا درجن قراردادیں پیش کی گئیں، جن کے ذریعے ایسے صدارتی آرڈیننسز کی منظوری لی گئی جن کی معیاد ختم ہو چکی یا ہونے کو ہے۔

حزب اختلاف کے اراکین نے تقریبا تمام قراردادوں کی منظوری کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے حق اور مخالفت میں کھڑے ہونے والے اراکین کی گنتی کا مطالبہ کیا۔

ایک قرارداد کے حق اور مخالفت میں کھڑے ہونے والے اراکین کی گنتی کی گئی، اور سپیکر اسد قیصر نے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ قرارداد تین کے مقابلے میں 145 ووٹوں سے منظور کی جاتی ہے۔

اپوزیشن کی تنقید

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے اس موقع پر کہا: ’حکومت پاکستان کی خود مختاری کو گروی رکھ رہی ہے، اور سٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کی برانچ بن کر رہ جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 22 کروڑ عوام کے حقوق کو بھی سرینڈر کیا جا رہا ہے اور اس وقت جو کچھ ایوان میں ہو رہا ہے اس پر شرمسار ہی ہوا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت لمبے عرصے پہلے ختم ہونے والے صدارتی آرڈیننسز کو قراردادوں کے ذریعے دوبارہ قوانین میں تبدیل کر رہی ہے، جو اسمبلی رولز اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا: ’حکومتی وزیر اسمبلی سپیکر کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ ان کی اپنی نااہلی ہے، کیونکہ ان کو حکومت چلانا ہی نہیں آتی۔‘

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت میں شامل وفاقی وزرا آج اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے ہیں جو حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’شاہ صاحب اپنے مریدوں کے پاس تو جا سکتے ہیں، لیکن عام عوام میں نہیں جا سکتے۔‘

وفاقی وزیر بابر اعوان نے کہا کہ آرڈیننس کی مدت کو قانون و آئین کے تحت بڑھائی جا رہی ہے کیوں کہ حکومت نے یہ قراردادیں کافی عرصہ قبل اسمبلی میں جمع کروا دیں تھیں اور انہیں ان کا نمبر آنے پر ایوان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کی بات کرتی ہے، لیک وہ اپنے صرف تین اراکین کو قراردار کے حق میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

جمیعت علما اسلام (فضل الرحمن) کے پارلیمانی لیڈر اسد محمود نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی خیبر پختو خوا میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامیوں کو پارٹی کی عوام میں عدم مقبولیت کا نتیجہ قرار دیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں طاقت اور دھونس کے علاوہ  ’پیسے کا استعمال‘ بھی کر کے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے باوجود عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔

اس پر سپیکر اسد قیصر نے کہا: ’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ اس کو ثابت کریں۔‘

اپوزیشن رہنماوں نے سپیکر اسد قیصر پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایوان چلانے میں حکومتی بینچز کا ساتھ دے رہے ہیں جو آئین اور قانون کے منافی ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں تو آئے تھے مگر منی بجٹ پیش کرتے وقت وہ ایوان میں نہیں آئے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جمعے کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل سے عوام پر بوجھ بڑھنے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف تو سب پر سیلز ٹیکس لگوانا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ 700 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لیں، ہم اسے 343 ارب روپے پر لے آئے۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر 343 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی جس میں سے مشینری پر 112 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کی ہے، فارماسیوٹیکلز پر 160 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کی ہے، باقی لگژری اشیاء کی درآمد پر 71 ارب روپےکی ٹیکس چھوٹ ختم کی ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ بل میں 343 ارب روپےکی ٹیکس چھوٹ پرنظر ثانی کی گئی ہے جس میں سے 71 ارب روپے کے ٹیکسز کی چھوٹ میں لگژری آئٹمز شامل تھے۔ ان کے مطابق عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت