’طالبان نے القاعدہ کو بے دخل نہیں کیا تو ٹی ٹی پی کو بھی نہیں نکالیں گے‘

پاکستان افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے لیے ہچکچاہٹ کا شکار دنیا کو منانے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس کے جواب میں ایسے کوئی آثار نہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے آمادہ ہوں۔

پانچ جنوری، 2022 کو کابل میں افغان طالبان برف باری میں کھڑی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی تعداد چار سے 10 ہزار تک ہے (اے ایف پی)

پشاور کی باسی شاہانہ ہر سال 17 جنوری کو ایک کیک بناتی ہیں اور دوستوں کو گھر مدعو کر کے اپنے اس بیٹے کی سالگرہ مناتی ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں۔

دسمبر 2014 میں ان کا بیٹا اسفند خان 15 سال کا تھا جب مسلح افراد نے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں گھس کر 150 افراد کو ہلاک کر دیا۔ ان میں سے زیادہ تر کم عمر طالب علم تھے۔ اسفند کو قریب سے سر میں تین گولیاں ماری گئیں۔
حملہ آور پاکستانی طالبان تھے جنہوں نے اس واقعے کے سات سال بعد ایک بار پھر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے اور بظاہر کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ان کے حوصلوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 
دسمبر کے آخری ہفتے میں ان کے شمال مغرب میں نصف درجن حملوں اور جوابی حملوں میں پاکستان فوج کے آٹھ اہلکار جان سے گئے، جب کہ بدھ کو رات گئے طالبان کی سکیورٹی چوکیوں پر حملے میں مزید دو پاکستانی فوجی جان سے گئے۔
جولائی کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) دوبارہ جمع اور منظم ہو رہے ہیں اور ان کی قیادت کا صدر دفتر پڑوسی ملک افغانستان میں ہے۔
افغان طالبان نے ٹی ٹی پی رہنماؤں کو بے دخل کرنے یا انہیں پاکستان میں حملے کرنے سے روکنے کے کوئی آثار ظاہر نہیں کیے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ بات چیت اور ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار دنیا کو منانے کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔
یہ ایک مخمصہ ہے جس کا سامنا افغانستان کے تمام ہمسایوں اور چین، روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کو کرنا پڑتا ہے جب وہ کابل سے نمٹنے کے متعلق غور کرتی ہیں۔
چار دہائیوں سے زائد عرصہ جاری رہنے والے جنگوں کے دوران افغانستان میں متعدد عسکریت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں ملیں اور ان میں سے کچھ ٹی ٹی پی کی طرح میدانِ جنگ میں افغان طالبان کے سابق اتحادی ہیں۔
اب تک طالبان انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے یا ناکام ہیں۔ اس کی واحد رعایت دولتِ اسلامیہ سے منسلک تنظیم (داعش خراسان) ہے جو طالبان کی دشمن ہے اور اس نے ان کے خلاف اور افغانستان کی اقلیتی برادری کے خلاف برسوں سے تشدد کی مہم چلائی ہے جس میں درجنوں ہولناک حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
واشنگٹن نے دولتِ اسلامیہ کی اس شاخ کی نشاندہی کی ہے جسے ’آئی ایس کے‘ کے مخفف سے جانا جاتا ہے اور اسے افغانستان سے پیدا ہونے والی عسکریت پسندوں کی بڑی پریشانی قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کے دیرینہ اتحادی القاعدہ کو سخت خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ اگرچہ امریکی فوجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آثار سے لگتا ہے کہ یہ آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے لیکن جولائی میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری زندہ لیکن بیمار ہیں۔
اس کے باوجود افغانستان میں بہت سے دیگر عسکریت پسند مقیم ہیں اور وہ افغانستان کے ہمسایوں میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
چین اپنی اویغور مسلمان اقلیت کے مبینہ باغیوں سے خوف زدہ ہے جو سنکیانگ کے علاقے میں اپنی الگ ریاست چاہتے ہیں۔
روس اور وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان کی اسلامی تحریک کے بارے میں فکر مند ہیں جو حالیہ برسوں میں افغانستان کے نسلی ازبکوں میں بھرتی کی مہم پر گئی تھی۔
پاکستان کے لیے یہ ٹی ٹی پی ہے جس نے پاکستان پر کچھ بدترین دہشت گردحملے کیے جن میں 2014 میں اے پی ایس حملہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی تعداد چار سے 10 ہزار تک ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد کے ایک آزاد تھینک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ اس (ٹی ٹی پی) نے پاکستان کے اندر اپنی بھرتیوں کو سرحد کے ساتھ سابق قبائلی علاقوں سے آگے بڑھانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے جہاں اسے روایتی طور پر جنگجو ملتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پر شکنجہ کسنے میں افغان طالبان کی ہچکچاہٹ دوسری تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ان کی تیاری کے لیے اچھی نہیں۔
واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’واضح حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس۔کے کے علاوہ افغانستان میں سرگرم زیادہ تردہشت گرد طالبان کے اتحادی ہیں۔ طالبان علاقائی کھلاڑیوں اور مغرب کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود اپنے دوستوں پر بندوق اٹھانے والے نہیں۔‘
عسکریت پسندوں کی موجودگی افغان طالبان کے ساتھ بین الاقوامی معاملات کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی ہوئی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے رانا عامر نے کہا کہ پاکستان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ بیک وقت مذاکرات اور حملے کی پالیسی ’الجھن‘ کا باعث ہے جس سے دونوں ممالک میں ہم خیال باغیوں کی حوصلہ افزائی کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ان کے اپنے اتحادیوں کو بھی تشویش ہے۔
عامر رانا نے کہا کہ چین جو پاکستان میں اربوں خرچ کر رہا ہے، اسلام آباد کی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں سے خوش نہیں تھا۔
ٹی ٹی پی نے جولائی میں شمال مغربی پاکستان میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں متعدد چینی انجینیئر ہلاک ہوئے تھے اور اپریل میں ایک ہوٹل میں بم دھماکہ بھی ہوا تھا جہاں چینی سفیر ٹھہرے ہوئے تھے۔
پاکستان پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ افغان طالبان سے ٹی ٹی پی قیادت کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرے، لیکن طالبان کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات پیچیدہ ہیں۔
پاکستان کی طاقتور فوج جو ملک کی افغان پالیسی چلاتی ہے، کے طالبان قیادت کے ساتھ 40 سال پرانے تعلقات ہے جب پہلا حملہ ہوا تھا۔ پھر امریکہ کے ساتھ مل کر انہوں نے حملہ آور سابق سوویت یونین سے جنگ کی اور اسے شکست دی۔
2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد واشنگٹن اور اس کے افغان اتحادیوں نے پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی، یہاں تک کہ طالبان رہنما اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں رہتے تھے۔
لیکن طالبان کے مفادات پاکستان سے بھی مختلف بھی ہیں، خاص طور پر دونوں ممالک کی 2500 کلومیٹر (1600 میل) سرحد کا مسئلہ۔ افغانستان نے کبھی بھی سرحد کو تسلیم نہیں کیا جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے جسے 19 ویں صدی میں برطانوی نوآبادیاتی منتظمین نے کھینچا تھا۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے سرحدی باڑ کی تعمیر پر افغان طالبان کے غصے نے تشدد کا خطرہ پیدا کر دیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں طالبان کو باڑ کے لیے بنائی گئی خاردار تاروں کے اکھاڑ کو تباہ کرتے اور پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی دھمکی دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سرحدی باڑ لگانے کا کوئی حق نہیں۔ بدھ کو پاکستان کے فوجی ترجمان جنرل بابر افتخار نے کہا کہ باڑ 94 فیصد ہو چکی ہے اور اسے مکمل کر لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ’سکیورٹی، سرحد پار کرنے اور تجارت کو منظم کرنے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ضروری ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ ان کی حفاظت کرنا ہے۔‘
عالمی عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے لانگ وار جرنل کے ایڈیٹر بل روگیو کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان طالبان سے ٹی ٹی پی رہنماؤں کی حوالگی کا مطالبہ بھی کرے تو اسے نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’افغان طالبان جن وجوہات کی بنا کر القاعدہ کو بے دخل نہیں کریں گے ان ہی کی بنیاد پر ٹی ٹی پی کو بھی نہیں نکالیں گے۔
’افغان طالبان کی فتح میں دونوں گروپوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے افغان طالبان کے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور گذشتہ 20 سالوں میں بہت قربانیاں دیں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا