امریکہ اور جاپان کے درمیان دو نئے دفاعی معاہدے

سال 2026 تک جاری رہنے والے میزبانی کے معاہدے کی شرائط کے تحت جاپان امریکی فوجیوں کی موجودگی کے لیے سالانہ تقریبا 1.82 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔

جاپان کے وزیر خارجہ یوشیماسا حیاشی (دائیں) اور ریمنڈ گرین (بائیں) 7 جنوری 2022 کو ٹوکیو میں ایک نئے خصوصی اقدامات کے معاہدے (ایس ایم اے) اور جاپان امریکہ مشترکہ تحقیق پر دستخط کرنے کے بعد تصویر بناتے ہوئے ۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہاہے  کہ نئے معاہدے سے دونوں ممالک کی افواج کی تیاری میں زیادہ سرمایہ کاری ممکن ہوگی (اے ایف پی )

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ جاپان اور امریکہ اپنے دفاعی تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے جاپان میں تعینات امریکی فوجیوں کے اخراجات مل کر برداشت کرنے کے ایک نئے پانچ سالہ معاہدے پر جلد دستخط کریں گے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) کے مطابق امریکہ اور جاپان کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے درمیان ورچوئل کانفرنس کے بعد امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ وانشنگٹن اور ٹوکیو دفاع کے متعلق ٹیکنالوجیز اور مزید ترقی کے لیے تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کریں گے، جس میں ہائپر سونک ہتھیاروں کے خطرات سے نمٹنے کے طریقے بھی شامل ہیں۔

جاپان میں امریکی فوج کے اخراجات کے متعلق نئے فارمولے کے مطابق ہونے والے معاہدے نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کا تنازعہ ختم کردیا ہے جو امریکہ اور جاپان کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث تھا۔

اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ نئے معاہدے سے دونوں ممالک کی افواج کی تیاری میں زیادہ سرمایہ کاری ممکن ہوگی اور مل کر کام کرنے کی ان کی صلاحیت میں بہتری آئے گی۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جنہوں نے کورونا سے متاثر ہونے کے باعث اپنے گھر سے ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی، نے کہا کہ امریکہ اور جاپان کا اتحاد انتہائی اہم ہے۔

لائیڈ آسٹن نے کہا:’ شمالی کوریا کے جوہری عزائم اور عوامی جمہوریہ چین کے جبری اور جارحانہ طرز عمل سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے خلاف ہم آزاد، مستحکم اور محفوظ انڈو پیسیفک خطے کے لیے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور چیلنجوں کے پس منظر میں مل رہے ہیں جو ہم دونوں چاہتے ہیں۔

’ہم اس حمایت کے شکر گزار ہیں کہ جاپان وہاں تعینات امریکی افواج کو غیر معمولی باہمی تعاون فراہم کر رہا ہے۔‘

چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے بارے میں خدشات جمعرات کے روز جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط سے ظاہر ہوئے تھے، جو جاپان کا ایسا پہلا معاہدہ ہے جو اس نے امریکہ کے علاوہ کسی اور ملک کے ساتھ کیا ہے۔

جمعرات کو ہونے والے مذاکرات کورونا وائرس میں اضافے سے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ جاپان نے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے امریکہ سے اس کی سرزمین پر موجود امریکی فوجوں کے اڈوں پر کورونا کے پھیلاؤ کے سبب لاک ڈاؤن لگانے کے متعلق پوچھا تھا۔

اے پی کے مطابق یہ درخواست جاپان کے وزیرخارجہ یوشیماسا ہیاشی کی طرف سے اینٹنی بلنکن کو ون آن ون فون کال پر اور لائیڈ آسٹن اور جاپانی وزیردفاع نوبووکاشی کی ورچوئل کانفرنس میں شمولیت سے پہلے کی گئی تھی۔ چاروں شرکا میں سے کسی نے بھی اس کے متعلق اپنے ابتدایئے میں بات نہیں کی۔

ورچوئل کانفرنس سے پہلے بات کرتے ہوئے جاپان کے وزیرخارجہ نے کہا کہ انیٹنی بلنکن نے وعدہ کیا ہے امریکہ لوگوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے گا، لیکن اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ امریکی فوجی اڈوں پر کرفیو لگایا جائے گا یا نہیں۔ جاپان میں امریکی افواج اس درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گی تاہم انہوں نے کہا کہ ایک ٹیم معاملات کی احتیاط سے نگرانی کر رہی ہے۔

امریکی فوج نے مزید سخت اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جن میں تمام اہلکاروں، یہاں تک کہ ویکسین لگوانے والوں کےلیے بھی اس وقت تک ماسک پہننا لازم ہے جب تک کورونا وائرس کے تین ٹیسٹ منفی نہیں آجاتے۔

جنوبی جاپان میں اوکیناوا اور لاواکیونی سمیت امریکی فوج کے اڈوں والے علاقوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ امریکی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

یونائٹیڈ سٹیٹ فورس جاپان(یو ایس ایف جے) کے مطابق جاپان میں امریکی افواج میں کورونا کیسز کی تعداد اب مجموعی طور پر ایک ہزار 784 ہے جن میں سے تقریبا ایک تہائی اوکیناوا اور لاواکیونی میں 529 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی حکومت کو واضح طور پر امریکی فوجی موجودگی کا فائدہ نظر آتا ہے اور کرسمس سے کچھ دیر قبل امریکہ کے ساتھ لاگت میں حصہ داری کے ایک نئے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی گئی جس پر جمعہ کو ٹوکیو میں باضابطہ دستخط متوقع ہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیرون ملک امریکی افواج کی تعیناتیوں کے اخراجات کے بارے میں مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاپان سمیت میزبان ممالک اپنی دیکھ بھال کے لیے جو رقم ادا کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ رقم ادا کریں، جو ایشیا اور یورپ میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بری طرح کشیدہ کر رہا تھا۔

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور گزشتہ سال اپریل میں جنوبی کوریا کے ساتھ امریکی فوجیوں کو وہاں رکھنے کے اخراجات پر تعطل کا مسئلہ حل کیا تھا۔ جاپان کے ساتھ نئے چار سالہ ’خصوصی اقدامات کے معاہدے‘ پر 21 دسمبر کو ہونے والا اتفاق رائے اس پالیسی کا ایک اور ٹھوس نتیجہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2026 تک جاری رہنے والے میزبانی کے معاہدے کی شرائط کے تحت جاپان امریکی فوجی موجودگی کے لیے سالانہ تقریبا 1.82 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔

حکومتی احتساب دفتر(جی اے او )کے مطابق امریکہ کے جاپان میں تقریبا 55 ہزار فوجی موجود ہیں جن میں ایک بحری دستہ بھی شامل ہے جو دنیا میں سب سے بڑی فارورڈ تعینات امریکی فورس ہے۔

باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے علاوہ امریکہ اور جاپان امید کر رہے ہیں کہ وہ انڈو پیسفک کے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے نمٹنے اور شمالی کوریا کو اس کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے متعلق مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے طریقے تلاش کرنے میں تعاون اور ہم آہنگی میں اضافہ کریں گے۔

امریکہ اور جاپان شمالی کوریا کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں سے زیادہ پریشان ہیں جس نے بدھ کے روز سمندر میں ایک بیلسٹک میزائل داغا تھا۔

اس ٹیسٹ کے متعلق شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’ہائپر سونک میزائل‘ تھا۔ اس تجربے کو اس اشارے کے طور پر دیکھا گیا کہ شمالی کوریا جلد ہی جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس کے بجائے وہ اپنے ہتھیاروں کے اسلحہ خانے کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے بار بار درخواستوں کے باوجود شمالی کوریا نے جوہری مسئلے پر ابتدائی بات چیت میں بھی دوبارہ شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔

 دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے شمالی کوریا سے مزید تجربات سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور اس پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کا جواب دے۔

اقوام متحدہ کے سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، آئرلینڈ اور البانیہ نے اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے سے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے ہائپر سونک میزائل داغے جانے کے بارے میں پیر کو مشاورت کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا