نور مقدم کے والد کی عدالت سے ملزم کی سزائے موت کی استدعا

نورمقدم کے والد شوکت مقدم نے ہفتے کو عدالت میں بیان قلمبند کرواتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے مطالبہ کیا ہے۔

20 اکتوبر 2021 کو سماعت کے بعد پولیس اہلکار ظاہر جعفر کو واپس لے جاتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

جولائی 2021 میں اسلام آباد میں قتل ہونے والی 27 سالہ نورمقدم کے والد شوکت مقدم نے ہفتے کو وفاقی دارالحکومت کی ایک عدالت میں بیان قلمبند کرواتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے مطالبہ کیا ہے۔

سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی نورمقدم اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے مکان میں مردہ پائی گئی تھیں، ان کا سر دھڑ سے الگ کر دیا گیا تھا۔ قتل کی اس واردات پر عوامی سطح پر غصے کا اظہار کیا گیا جب کہ حال میں خواتین کے خلاف ہونے والے دوسرے جرائم کے برعکس یہ واقع میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہا۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو قتل والے دن جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کے دوسرے ملزموں میں ظاہر کے والدین ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی، ان کے گھر کے تین ملازمین افتخار، جان محمد اور جمیل سمیت نفسیاتی علاج کے سینٹر تھراپی ورکس کے چھ کارکن شامل ہیں۔ ملزم ظاہر جعفر نے اسی سینٹر سے تھراپسٹ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر رکھا ہے جب کہ قتل کی واردات سے کئی ہفتے پہلے ان کا یہاں علاج بھی ہوتا رہا ہے۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں زیر سماعت قتل کا یہ مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں جن پر مدعا علیہان کے وکیل جرح میں مصروف ہیں۔ ہفتے کو شوکت مقدم نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی’ذاتی دشمنی‘نہیں ہے۔ ان کے مطابق: ’میری بیٹی کو غیر قانون طور پر قتل کیا گیا۔ ظاہر جعفر کو سزائے موت دی جائے۔‘

بیٹی کے قتل والے دن کے واقعات بیان کرتے ہوئے شوکت کا کہنا تھا کہ 19 جولائی کو وہ اور ان کی اہلیہ گھر پر نہیں تھے اور جب وہ واپس پہنچے تو ان کی بیٹی گھر میں نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پریشان ہو گئے اور نور کو فون کیا لیکن ان کا موبائل فون بند تھا۔ شوکت مقدم کے بقول: ’میں نے ان (بیٹی) کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں (بیٹی) نے فون اٹھایا تو مجھے پریشان نہ ہونے کے لیے کہا اور یہ کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں۔‘

شوکت مقدم نے کہا کہ 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے انہیں فون کیا اور بتایا کہ نور ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جعفرکے خاندان کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ شوکت مقدم نے بتایا کہ اسی دن رات 10 بجے کے قریب انہیں تھانہ کوہسار سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ’پولیس مجھے ظاہر جعفر کے گھر لے گئی جہاں میں نے دیکھا کہ میری بیٹی کو قتل کر کے اس کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوکت مقدم نے بتایا کہ نور کا موبائل فون گھر کی ایک الماری سے برآمد ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے فون نور مقدم  سے چھین لیا تھا۔

شوکت مقدم کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد بشارت اللہ خان ایڈووکیٹ جو اس کیس میں ظاہر کے والد کے وکیل ہیں، نے حقائق کی تصدیق کے لیے ان کے بیان پر جرح کی۔ شوکت نے کہا کہ انہیں اس مقدمے میں ظاہرجعفر خاندان کے علاوہ  کسی دوسرے مشتبہ شخص کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔

ظاہرجعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین مقدمے کی سماعت کے موقعے پر موجود نہیں تھے۔ ان کے ایک جونیئر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ کووڈ 19 سے متاثرہیں۔

 شاہ خاورایڈووکیٹ جو مقدم خاندان کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے کہا کہ وہ کیس کی شفاف اور کھلی سماعت چاہتے ہیں اس لیے ظاہر کے وکیل پیر کو ان کے موکل سے جرح کر سکتے ہیں۔ عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان