’گجر خواتین کی توہین‘ پر مانسہرہ کا یوٹیوبر گرفتار

گجر قوم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے بالاکوٹ شہر میں جمع ہوکر پولیس سے مطالبہ کیا کہ یوٹیوبر نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں گجر خواتین کی توہین کی اور منع کرنے کے باوجود یوٹیوبر نے لسانی اور نسلی منافرت اور فسادات کرانے کی کوشش کی ہے۔

گجر قوم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے بالاکوٹ شہر میں جمع ہوکر پولیس سے مطالبہ کیا کہ یوٹیوبر نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں گجر خواتین کی توہین کی اور منع کرنے کے باوجود یوٹیوبر نے لسانی اور نسلی منافرت اور فسادات کرانے کی کوشش کی ہے ( کریڈٹ: حیدر نیوز فیس بک مانسہرہ)

رواں ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک یوٹیوبر ’لالہ خورشید‘ کو پولیس نے مقامی افراد کی شکایت پر گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے گجر قوم کی خواتین کی ’توہین‘ کی ہے۔

گجر قوم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے بالاکوٹ شہر میں جمع ہوکر پولیس سے مطالبہ کیا کہ ’یوٹیوبر نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں گجر خواتین کی توہین کی اور منع کرنے کے باوجود یوٹیوبر نے لسانی اور نسلی منافرت اور فسادات کرانے کی کوشش کی ہے۔‘

دوسری جانب، گزشتہ شام گرفتار ہونے والے ملزم کی آج عدالت میں پیشی ہوئی اور انہوں نے پولیس کے سامنے ایک ویڈیو میں معافی مانگتے ہوئے اپنے فعل پر شرمندہ ہونے کا اقرار کیا۔

سترہ جنوری کو درج ہونے والی ابتدائی اطلاعی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق،  ضلع مانسہرہ کے ایک مقامی بیٹھک میں یوٹیوبر نے اپنے چند نامعلوم دوستوں کے ساتھ مل کر ایک موسیقی کے ایک لائیو پروگرام کے ذریعے گجر برادری کی مبینہ طور پر دل آزاری کی۔

ایف آئی آر میں مزید لکھوایا گیا ہے: ’پورے پاکستان میں تقریباً چار کروڑ گجر قوم آباد ہے اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی کا تعلق بھی گجر قوم سے تھا، بلکہ آج بھی پاکستان کے مختلف شعبوں میں اس قوم کے سپوت اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا اس شخص اور اس کی پوری ٹیم کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت سوشل میڈیا کے غلط استعمال، معاشرے میں نفرت پھیلانے اور نسلی تعصب کو ہوا دے کر قومی یکجہتی اور امن وامان کامسئلہ پیدا کرنے پر سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘

ایس ایچ او بالاکوٹ پولیس سٹیشن گل نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ: ’چونکہ یہ قومیت اور امن وامان کا معاملہ تھا اور ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی لہذا انہیں ایکشن لینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کیس کی تفتیش جاری ہے، جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ خورشید کتنا قصوروار ہے۔‘

 دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ کے وکیل مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ یہ’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کا معاملہ ہے، جو کہ بنیادی طور پر سائبر کرائم والوں کا کام ہے لہذا قانون کے مطابق اس طرح کے کیسز میں گرفتاری کا حق پولیس کا نہیں بلکہ ایف آئی اے کا ہوتا ہے۔‘

تاہم انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اس معاملے کو ’آزادئ اظہار‘ کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتا، کیونکہ جہاں کہیں ایسے الفاظ استعمال ہوں جن سے کسی ایک خاص جنس یا قوم کو نشانہ بنایا جائے تو یہ غلط ہے۔ ‘کسی شخص کی آزادی اظہار کا حق وہیں ختم ہوجاتا ہے جہاں سے کسی کا ذاتی حد شروع ہوتا ہے۔‘

 معاملہ کیا تھا؟

مانسہرہ میں سینکڑوں لوگوں کے احتجاج اور یوٹیوبر کی گرفتاری کے معاملے پر اس کیس کے مدعی تبارک ٹھاکر گجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 16 جنوری کی شام لالہ خورشید، جو کہ اکثر اپنے ایک یوٹیوب چینل پر علاقے کے مسائل اور معاملات پر بات کرتے رہتے ہیں،  نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں ایک مقامی گلوکار سے ایسا گانا گوایا جس کے بول تھے، ’سونڑاں میرا ماہیا، میں بالاکوٹ دی گجری۔‘

انہوں نے بتایا کہ دراصل اوریجنل گانے میں ’گجری‘ کی جگہ لفظ ’اجڑی‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ شخص جو گھر سے بے گھر ہوگیا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بعد ازاں کچھ لوگوں نے اس گانے میں تبدیلی کرواکر اس گجری کر دیا۔ بات اگر صرف اس لفظ کو ہوتی تو ہم نظرانداز کرلیے، لیکن مسئلہ تب بنا جب اس شخص کو لائیو پروگرام کے دوران پیغام بھجوا کر منع کیا گیا۔ انہوں نے ڈھٹائی دکھاتے ہوئے دوبارہ وہی گانا لگوایا، جس نے لوگوں کو اشتعال دلوایا۔‘

تبارک ٹھاکر نے کہا کہ ملزم نے قصداً نفرت پھیلانے کی ایک کوشش کی ہے اور سائبر قوانین کا غلط استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع مانسہرہ میں تقریباً ساٹھ فیصد اور پورے ہزارہ میں تقریباً تیس فیصد گجر قوم آباد ہے۔

’اس گانے سے ہم سب کی دل آزاری ہوئی ہے، کیونکہ یہ ہماری عورتوں کی توہین ہے۔ نسلی اور لسانی منافرت کو ہوا دینا ایک حساس معاملہ ہے، ہر شخص کو اس سے اجتناب برتنا چاہیے۔‘

تبارک ٹھاکر نے کہا: ’اب یوٹیوبر نے معافی مانگ لی ہے، جوکہ گجر قائدین کا اصل مقصد تھا، تاکہ آئندہ دیگر لوگ بھی سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں۔ مغربی دنیا میں ریپ کے گانوں میں بھی اکثر گالم گلوچ اور برے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو وہ گلوکار کسی قوم، نسل یا رنگ کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ عمومی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان