خیبرپختونخوا:سوشل میڈیا پر اشتہارات کی پالیسی کے مقاصد سیاسی ہیں؟

صوبائی حکومت نے اس سے قبل پورے صوبے میں 1200 سے زیادہ ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ کو بھرتی کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جو ایک سال کے لیے ہوں گے۔ ہر ایک انفلوئنسر کو ماہانہ 25 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی یہ تصویر 13 اگست 2018 کو لی گئی تھی جب صوبائی قانون ساز اپنے چہدوں کا حلف اٹھا رہے تھے (تصویر: اے ایف پی فائل)

صوبہ خیبر پختونخوا کی کابینہ نے اپنے اجلاس میں ڈیجیٹل و سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ’انفلوئنسرز‘ (سوشل میڈیا پر معروف شخصیات) کو اشتہارات دینے کی پالیسی کی منظوری دے دی ہے لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی حکومت نے پارٹی پروپیگنڈہ کرنے کے لیے بنائی ہے۔

وفاق اور صوبے میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ یہ پالیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک عوام کی زیادہ رسائی کی وجہ سے بنائی گئی ہے تاکہ ان تک اشتہارات کی رسائی آسان بنائی جائے۔

خیبر پختونخوا انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی زر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے کچھ بین الاقوامی مقالے دیکھے ہیں جن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام زیادہ تر چاہتے ہیں کہ اشتہارات اور حکومتی اشتہاری مہم اخبار اور ٹی وی سمیت سوشل میڈیا پر بھی چلائی جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کو آج کل بہت لوگ استعمال کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہ پالیسی بنائی ہے تاکہ عوام اشتہاری مہم سے محروم نہ رہیں۔‘

یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے اس سے قبل پورے صوبے میں 1200 سے زیادہ ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ کو بھرتی کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جو ایک سال کے لیے ہوں گے۔

سرکاری ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق ہر ایک انفلوئنسر کو ماہانہ 25 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا اور ان کی مدت ملازمت ایک سال ہوگی۔

ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق ان انفلوئنسرز کا کام یہ ہوگا کہ وہ حکومت کے خلاف ’پروپیگنڈہ‘ کا جواب دیں گے اور ساتھ میں جعلی خبروں کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کریں گے۔

ادھر اپوزیشن جماعتوں نے ان افراد کو ملازمت دینے کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسی پالیسی حکومت کی جانب سے عوام کے پیسوں کا ضیاع ہے اور حکومت عوام کے پیسوں سے اپنی جماعت کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرانا چاہتی ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔

زر علی نے بتایا کہ ’جہاں تک اشتہارات کا تعلق ہے تو یہ ان ویب سائٹس کو دیے جائیں گے جن کے صارفین زیادہ ہوں گے۔‘

 اسی طرح کی ایک پالیسی صوبائی حکومت کی جانب سے سال 2018 میں بھی سامنے آئی تھی جس کے حوالے سے زر علی نے بتایا کہ یہ وہی پالیسی ہے لیکن اب اس میں توسیع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’نئی پالیسی میں ہم نے ویب سائٹس کے ساتھ انفلوئنسرز کو بھی شامل کیا ہے۔ پالیسی کے مطابق ان انگریزی ویب سائٹس کو اشتہارات دیے جائیں گے جن کو روزانہ پڑھنے والوں کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہوگی جبکہ اردو ویب سائٹس کے لیے روازنہ پڑھنے والوں کی تعداد ایک لاکھ رکھی گئی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ویب سائٹس کا انتخاب کیسے ہوگا اور حکومت کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان ویب سائٹس کو اتنے لوگ پڑھتے ہیں، تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ اشتہارات اشتہاری کمپنی کو دیں گے اور وہ اشتہارات کو ویب سائٹس اور انفلوئنسز کو دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ویب سائٹس اور انفلوئنسرز کا انتخاب حکومت کرے گی اور وہ ان کے نام اشتہاری کمپنی کو فراہم کرے گی۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ انفلوئنسرز کے لیے کیا شرائط ہیں، تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی شخص کے جتنے زیادہ فالوورز ہوں گے تو اس کو اسی حساب سے اشتہارات دیے جائیں گے۔‘

اشتہارات کی قیمتوں کے حوالے سے سال 2018 کی پالیسی میں لکھا گیا ہے کہ ’ویب سائٹ کے ہوم پیج پر ہر ایک ہزار امپریشن (سوشل میڈیا پر کسی بھی پوسٹ کو دیکھنے کے بعد اس پر دیے جانے والے ردعمل کی ایک تعداد جمع کی جاتی ہے جس کو امپریشن کہتے ہے) کے 200 روپے ہوں گے جبکہ باقی پیجز میں یہی ریٹ 25 فیصد کے حساب سے کم ہو گا۔‘

اسی طرح ویڈیو اشتہارات کے لیے اس ریٹ میں 25 فیصد اضافہ ہوگا۔ پالیسی کے مطابق سوپر لیڈ کے لیے سائز 970 ضرب 90 پکسلز مقرر کا گیا ہے جبکہ لیڈر بورڈ کے لیے 728 ضرب 90 پکسلز مقرر کیا گیا ہے۔

پالیسی کے مطابق درمیانے سائز کے لیے 300 ضرب 250 پکسلز جبکہ موبائل براوزر کے لیے 320 ضرب 100 پکسلز مقرر کیے گئے ہیں۔

زر علی نے مزید بتایا کہ ’ان ریٹس کو اب ڈالر کے حساب سے بڑھا دیا گیا اور نئی پالیسی کے تحت اشتہارات نئے ریٹس کے مطابق دیے جائیں گے۔ اسی طرح پالیسی کے مطابق حکومتی مہمات کے لیے فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، یوٹیوب اور انسٹا گرام کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان اشتہاری مہمات کے ریٹس ہر مہم کے لیے مختص بجٹ کے مطابق ہوں گے۔‘

حزب اختلاف کی جماعت کا موقف

صوبے میں حزب محالف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ترجمان ثمر بلور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عوامی پیسے کا ضیاع ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کا عملی طور پر کوئی کردار نہیں ہے لیکن یہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ عوام ان سے نالاں ہو چکے ہیں اور اس کی ایک جھلک عوام نے بلدیاتی انتخابات میں دیکھ لی ہے۔‘

حکومتی موقف

اس ساری صورتحال پر انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے بار بار رابطے کی کوشش کی اور ان کے سیکرٹری کو بھی کئی بار پیغامات بھیجے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان