نواز شریف کو انتخابات میں لندن سے رہنمائی کرنی چاہیے: رانا ثنااللہ

نواز شریف کی وطن واپسی کے سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ جب چاہتے ہیں فون پر بات کرتے ہیں ویڈیو لنک پر میٹنگ کرتے ہیں مگر ادھر آکر وہ جیل میں بیٹھ جائیں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ چار رہنماؤں کی ’ایک اہم شخصیت‘ کے ساتھ ملاقاتوں کی بات صرف ’میڈیا بلف‘ تھا تاکہ ضمنی بجٹ پر بات نہ کی جا سکے۔

رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ جن کے ساتھ میٹنگ کی بات کی جا رہی ہے ان کا نام ہی نہیں ہے۔ ’جن کی طرف اشارہ کر رہے تھے وہ خود سر عام کہہ رہے تھے کہ ہماری کوئی ڈیل نہیں ہو رہی، اگر کوئی کہہ رہا ہے تو پوچھیں کس سے ہو رہی ہے؟‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ لانگ مارچ میں شرکت سے متعلق سوال کے پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’انہیں کراچی سے چلنا ہے اور ہم لاہور سے نکلیں گے، تو ہم ان سے پہلے نکلیں گے اور آگے چل کر گجرانوالہ میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔‘

نواز شریف کی وطن واپسی کے سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ الیکشن کی تیاریوں میں انہیں لندن میں رہ کر پارٹی کی رہنمائی کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ جب چاہتے ہیں فون پر بات کرتے ہیں ویڈیو لنک پر میٹنگ کرتے ہیں مگر ادھر آکر وہ جیل میں بیٹھ جائیں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ وہ پھر 15 دن بعد جائیں اور پھر لائن میں لگیں تو وہاں بات نہیں ہوسکتی ہے۔‘

الیکشن میں مہم کی سربراہی سے متعلق سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا مریم نواز کراؤڈ پلر ہیں اور لوگ ان کی باتوں کو پسند کرتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بلاول بھٹو کے بیان پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا پی پی پی ’پوائنٹ سکورنگ‘ کے لیے یہ بات کرتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہمارے پاس نمبرز پورے ہوں تو ہم کیوں عدم اعتماد نہیں لانا چاہیں گے؟ کچھ چیزیں تسلیم کرنی چاہیں کہ ہمارے پاس آج تک کبھی نمبر پورا نہیں ہوا نہ پنجاب میں نہ وفاق میں۔‘

آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کی افواہوں کے حوالے سے پوچھنے پر رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’اس سے مسلم لیگ کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سے پوچھا گیا کہ کیا ن لیگ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا: ’ہمارا تو ایک ہی مطالبہ ہے نہ توسیع لینے کا نہ دینے کا۔ قانون ایک بن گیا اس کو ہم نے ووٹ دے دیا ہے اس قانون کے مطابق جو گنجائش ہے وہ ہے۔ اگر اس میں توسیع ہے تو ہم اسے بدل تو نہیں سکتے۔‘

یاد رہے کہ پانچ جنوری 2022 کو ہونے والی پریس بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار سے جب ایک صحافی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا اس طرح کی بے بنیاد افواہوں اور قیاس آرائیوں کو ہوا نہ دیں۔

انٹرویو کے دوران رانا ثنا اللہ سے پے در پے چند سوالات کیے گئے جس کے انہوں نے کھرے کھرے جواب دیے۔

ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف یا مریم نواز ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف مگر مریم نواز بھی وزیر اعظم بنیں گی۔‘

 بہتر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ یا عثمان بزدار؟ رانا ثنا اللہ نے جواب دیا ’مراد علی شاہ۔‘

آپ کو کون بہتر لگے جنرل قمر جاوید باجوہ یا راحیل شریف تو ان کا جواب تھا ’راحیل شریف۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست