آٹو پالیسی میں چار مرتبہ تبدیلی کے معاشی اثرات

نئی آٹو پالیسی کی لانچنگ کے بعد کار کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمت میں ایک ہی جھٹکے میں تاریخی اضافہ کیا ہے۔ مختلف ماڈلز کی گاڑیوں کی قیمت میں 50 ہزار سے دس لاکھ روپے تک اضافہ ہوا ہے۔

نئی آٹو پالیسی کی لانچنگ کے بعد کار کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمت میں ایک ہی جھٹکے میں تاریخی اضافہ کیا ہے(تصویر: اے ایف پی فائل)

تحریک انصاف کی حکومت کی اب تک جو بھی کارکردگی رہی ہو، کم از کم مستقل مزاجی اور پالیسی کا تسلسل اس کا حصہ نہیں ہے، اسی لیے ان کے ساتھ ’یو ٹرن‘ کا لفظ نتھی ہو گیا ہے۔

اسی کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن کسی فیصلے کو درست قرار دے کر اس کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیے جاتے ہیں اور چند دنوں بعد اسی پالیسی کو ختم کر کے اس کے نقصانات بتائے جا رہے ہوتے ہیں۔

تحریکِ انصاف سرکار نے جولائی 2021 میں نئی آٹو پالیسی پیش کی جس میں گاڑیوں پر ٹیکس ریٹ کم کر دیا۔

 حکومت نے اس پالیسی میں عوامی ریلیف کے بلند و باگ دعوے کیے۔ سب سے زیادہ تشہیر اس بات کی گئی کہ کار کمپنیوں کو گاڑیوں کی قیمتیں مزید بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اون منی کا کاروبار ختم ہو جائے گا۔

لیکن حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ حکومت نے اپنی بنائی ہوئی پالیسی کو خود ہی تبدیل کر دیا ہے۔ جن گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈھائی اور پانچ فیصد تک کم کی گئی تھی جنوری 2022 میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں دوبارہ اسی شرح سے ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔

اسی دوران بعض ماڈلز پر سیلز ٹیکس بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 1300 سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نہیں تھی جو کہ اب ڈھائی فیصد لگا دی گئی ہے۔ یہ گاڑیاں متوسط طبقے کے لیے ہیں۔

سرکار اسی طبقے کی سہولتیں فراہم کرنے کی دعویدار ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔

گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کس حساب سے ہو رہا ہے اس بارے میں شک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ ایک کمپنی نے ڈھائی فیصد ایف ای ڈی کے بعد 1000 سی سی گاڑی کی قیمت تقریبا ڈیڑھ لاکھ بڑھا دی جبکہ دوسری کمپنی نے 1600 سی سی گاڑی پر ڈھائی فیصد ٹیکس بڑھنے سے قیمت صرف ایک لاکھ روپے بڑھائی ہے۔

عوام کے چہروں پر سوالیہ نشان ہے لیکن سرکار اس معاملے پر کار کمپنیوں سے سوال کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔

اس کے علاوہ کار کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت اور مہنگائی میں اضافے کو بنیاد بنا کر گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کی روایت بھی برقرار رہی ہے۔

 نئی آٹو پالیسی کی لانچنگ کے بعد کار کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمت میں ایک ہی جھٹکے میں تاریخی اضافہ کیا ہے۔ مختلف ماڈلز کی گاڑیوں کی قیمت میں 50 ہزار سے دس لاکھ روپے تک اضافہ ہوا ہے۔

چونکہ جزل سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی گاڑیوں کی بنیادی قیمت کے حساب سے تبدیل ہوتی ہیں۔ اس لیے بنیادی قیمت بڑھنے سے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کا بوجھ عام آدمی پر پڑا ہے۔

ملک میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی تیاری کو یقینی بنانے اور گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کے لیے حکومت نے آٹو پالیسی میں شرح سود کو کم رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ بلکہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی برآمدات بڑھانے ہر بھی زور دیا گیا تھا۔

تحریک انصاف کی پہلی آٹو پالیسی میں گاڑیوں کی فروخت کو دو لاکھ 10 ہزار سے بڑھا کر تقریبا تین لاکھ تک لے جانے کا دعوی کیا گیا تھا۔

2022-23 کے اختتام تک گاڑیوں کی پیداوار پانچ لاکھ تک پہنچائے جانے کا ارادہ ہے۔ گو کہ حکومت گاڑیوں کی فروخت بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن مطلوبہ ہدف تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اس کی وجہ آٹو پالیسی میں تبدیلی ہے۔ پہلی پالیسی میں بینکوں سے گاڑی لینے کے لیے ابتدائی ادائیگی 15 فیصد مقرر کی گئی تھی اور تمام ماڈلز کی چھوٹی بڑی، نئی اور پرانی، مقامی اور امپورٹد گاڑیاں بینکوں سے لیز پر لی جا سکتی تھیں۔

لیکن سرکار نے بعدازاں آٹو پالیسی تبدیل کر دی۔ لیزنگ کے لیے ابتدائی ادائیگی 15 سے بڑھا کر 30 فیصد کر دی گئی۔ تیار شدہ درآمد کی گئی گاڑیوں کی لیز ختم کر دی۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ گاڑیوں کی لیزنگ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ اس سے گاڑیوں کی فروخت کم ہو گئی۔

پہلے حکومت نے یہ کہہ کر ڈسکاونٹ آٹو پالیسی جاری کی کہ معیشیت کا پہیہ چل سکے گا اور بعدازاں یہ کہہ کر پالیسی تبدیل کر لی کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔

 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو پہلے نہیں پتہ تھا کہ اس عمل سے درآمدات بڑھیں گی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتا ہے؟

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکار کے پاس ایسی موثر معاشی ٹیم نہیں ہے جو حالات کا درست اندازہ لگا سکے اور موثر فیصلہ سازی میں مددگار ثابت ہو سکے۔

شرحِ سود میں اضافہ

اس کے علاوہ سٹیٹ بینک نے گذشتہ ماہ شرح سود میں تقریبا 2.75 فیصد اضافہ کر دیا۔ جس سے یہ خدشہ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے کہ مینوفکچرنگ یونٹس منافع نہیں کما سکیں گے۔ اتنی زیادہ شرح سود پر نئے کاروبار کی شروعات کرنا مشکل ہوتا ہے، بلکہ جو کاروبار چل رہے ہوتے ہیں ان کے آپریشنز بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کا کاروبار عمومی طور پر بینک فنانسنگ پر چلتا ہے۔

ملکی تاریخ کی دوسری آٹو پالیسی پیش کرتے وقت ڈسکاونٹ ریٹ تقریبا سات فیصد تھا۔ جو اب 9.75 فیصد ہے۔ یہ حالات آٹو سیکٹر کے لیے اچھے نہیں ہیں۔

اون منی کا کاروبار زوروں پر

موثر پالیسی سازی نہ ہونے کے باعث گاڑیوں پر اون منی کا کاروبار بھی بند نہیں ہو سکا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ زیادہ زور و شور سے چل رہا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ آٹو پالیسی میں انویسیٹر سے گاڑی لینے پر 50 ہزار سے دو لاکھ روپے تک اضافی ٹیکس لگایا گیا۔

عوام نے اس کا حل بھی نکال لیا ہے۔ پہلے گاڑی انویسیٹر کے نام رجسٹرد کروائی جاتی ہے اور کچھ ماہ بعد اپنے نام منتقل کروا لی جاتی ہے۔ اس سے اضافی ٹیکس کا بوجھ بھی کم پڑتا ہے اور اون کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے۔

اس کے علاوہ عوام گلہ کرتی دکھائی دے رہے ہیں کہ ماضی میں گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنے کا فائدہ اکثرعوام تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ جولائی 2022 میں گاڑیوں کی قیمتیں کم کی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 فیضان نامی شخص نے 10 لاکھ روپے دے کر گاڑی بک کروا لی۔ ڈیلیوری ٹائم سات مہینے بعد کا دیا گیا۔ ان سات مہینوں میں گاڑی کی قیمت تین لاکھ روپے بڑھ گئی ہے۔ سات ماہ انتظار بھی کیا اور قیمت بھی اضافی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر دو لاکھ روپے اون دے کر گاڑی خرید لی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ سات ماہ انتظار نہ کرتا پڑتا اور گاڑی بھی کم قیمت پر مل جاتی۔ اون منی کاروبار بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عام آدمی کو یہ حقیقت معلوم ہے تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہ سرکار کے علم میں نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کار کمپنیوں کو اپنی کپیسٹی بڑھانے کا ٹائم فریم دیا جائے اور گاڑی بکنگ کے 30 دن کے اندر فراہم کی جائے۔عمل درآمد نہ کرنے والی کمپنی کا لائسنس معطل کیا جائے۔ اون منی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا۔

الیکٹرک گاڑیوں میں تذبذب

الیکٹرک وہیکلز کے حوالے سے بھی آٹو پالیسی میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔ پہلے اس سیکٹر کو پروموٹ کرنے کے لیے صرف پانچ فیصد جزل سیلز ٹیکس لگایا گیا تھا جو کہ اب بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آٹو پالیسی بنانے سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آتی تو اس پالیسی کا کیا فائدہ ہے۔ اس سے بہترشاید یہ ہے کہ کوئی پالیسی بنائی ہی نہ جائے۔ کم از کم اس سے پالیسی سازی پر خرچ ہونے والا عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع ہونے سی بچ سکتا ہے۔

سرکار سے گزارش ہے کہ ان معاملات پر عوام کو اعتماد میں لے۔ کیونکہ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ آٹو پالیسی کو لگاتار تبدیل کرنے کے پیچھے کار کمپنیوں اور سرکار کا گٹھ جوڑ ہے۔ جب تک اس پر قاری ضرب نہیں لگائی جائے گی کوئی آٹو پالیسی عوام کی حقیقی ترجمانی نہیں کر سکے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ