صدی پرانی بابا جی مسجد: ’تعمير کے لیے لکڑیاں دریا میں بہا کر لائے‘ 

آج سے تقریباً 122 سال پہلے خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر تیمرگرہ کے عین وسط میں یہ مسجد محی الدین المعروف تیمرگری بابانے تعمیر کی جو لکڑی کے تعمیراتی و آرائشی کام کا ایک ’شاہکار‘ ہے۔

’122 سال گزر گئے لیکن اس مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والی لکڑی اسی حالت میں موجود ہے اور لگتا ہے جیسے یہ ابھی ابھی تعمیر کی گئی ہو، لیکن مسجد کا ایک حصہ خستہ حالی کا شکار ہے اور وہاں مرمت کی ضرورت ہے۔‘

یہ کہنا تھا میاں گل وجیہہ الدین کا جو محی الدین المعروف تیمرگری بابا کے نواسے ہیں۔ آج سے تقریباً 122 سال پہلے خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر تیمرگرہ کے عین وسط میں یہ مسجد تیمرگری بابا نے تعمیر کی جو لکڑی کے تعمیراتی و آرائشی کام کا ایک ’شاہکار‘ ہے۔

تیمرگرہ میں واقع  یہ مسجد ’بابا جی‘ مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ چھ کنال رقبے پر تعمیر کی گئی اس مسجد میں دو بڑے ہال اور ایک حصہ لنگر خانے کے لیے بنایا گیا ہے، جہاں آج کل مدرسہ چل رہا ہے۔

مسجد کو تعمير کرنے والے محی الدین المعروف تیمرگری بابا کے نواسے وجیہہ الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پردادا ’اللہ والے انسان تھے اور جہاں بھی گئے، وہاں مسجد تعمیر کی۔ ان کے مختلف علاقوں میں مرید بھی تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر تقریباً چار سال میں مکمل ہوئی تھی اور اس میں دیودار کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ وجیہہ الدین نے بتایا: ’اس میں استعمال ہونے والی لکڑی دیر بالا سے لائی گئی ہے۔ اس وقت چونکہ بھاری مشینری نہیں تھی تو دریائے پنجکوڑہ میں لکڑیوں کو پھینک دیا جاتا تھا اور پھر یہاں دریا سے نکال کر انہیں مسجد کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسجد کے ایک بڑے ہال میں موجود 16 ستون آج بھی قائم ہیں۔ نہ انہیں دیمک لگی اور نہ ہی کوئی اور مسئلہ ہے۔ وجیہہ الدین کے مطابق اس کے دروازوں میں آج کل جیسے قبضے استعمال نہیں ہوئے بلکہ دروازے اور چوکھٹ کو ایک دوسرے سے لکڑی کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسجد کا ایک حصہ منہدم ہونے کے قریب تھا تو اسے گرا کر نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے، تاہم اب بھی ایک حصہ مرمت طلب ہے، لیکن اس کے لیے انہیں حکومتی مدد کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے بتایا: ’بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس مسجد کو بنے ایک صدی گزر گئی ہے لیکن ابھی تک اسے ثقافتی ورثہ قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہاں سیاحوں کی سہولت کے لیے کچھ موجود ہے۔ اگر حکومت سرپرستی کرے تو یہ مذہبی سیاحت کا ایک بہتر مرکز بن سکتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا