ترکی کے شہری احمد خان اور ان کا خاندان دنیا کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے کہ مساجد سماجی میل جول کے سب سے خوبصورت مراکز ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ احمد خان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہر ہفتے کے اختتام پر استنبول کی ایک مختلف مسجد کا دورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے جس 100ویں مسجد کا دورہ کیا، وہ استنبول کی تاریخی خرقه شریف مسجد تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے مساجد کا دورہ کرتے اور وہاں سماجی تعلقات بناتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔
اس خاندان نے گذشتہ سال مارچ میں ترک نیوز ویب yenisafak.com کو اپنے اس پروجیکٹ یعنی ’شاپنگ مال کے بجائے مسجد کی ثقافت‘ کے بارے میں بتایا۔
ان کا کہنا ہے کہ مساجد مسلم معاشروں میں سماجی زندگی کے مراکز ہیں جو اپنی یکجا خصوصیات کے ساتھ مقدس ترین مقامات بھی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’مساجد ایسی جگہ ہیں جہاں کوئی تفریق نہیں اور سب لوگ دروازے سے داخل ہوتے ہی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے دعا کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اب یہ ایک ایسی جگہ سمجھی جاتی ہے جہاں صرف عمر رسیدہ لوگ ہی جاتے ہیں۔‘
حالیہ برسوں میں کیے گئے مختلف مطالعات کے ساتھ ساتھ یہ خاندان نئی نسل کو مسجد میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
احمد خان اور ان کی اہلیہ زینب خان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے مسجد جائیں اور لوگوں سے ملیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر ویک اینڈ پر استنبول کی ایک مختلف مسجد جاتے ہیں۔
ان کے بقول: ’ہم ان اقدار کو دوبارہ حاصل کرلیں گے جو ہم نے کھو دی تھیں کیونکہ ہمارے بچے مساجد کے ارد گرد پروان چڑھ رہے ہیں۔‘
بچوں کی پرورش کہاں ہوگی؟
چار سال پہلے جب اس خاندان کو ویک اینڈز پر کوئی سرگرمی نہیں ملتی تھی تو وہ شاپنگ مالز کا رخ کر لیتے تھے۔ لیکن پھر انہوں نے خود سے سوال کیا: ’ہم کیا کر رہے ہیں؟‘
احمد خان نے بتایا: ’بچے نادانستہ طور پر شاپنگ مال کلچر کے ساتھ بڑے ہو جاتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمیشہ سے مساجد جانے کا رجحان رہا ہے۔ جب اذان ہوتی تو ہم مسجد جاتے تھے۔ ہم رمضان کے مہینے میں نماز تراویح پڑھنے مساجد کا رخ کرتے تھے۔ یہ ایک اچھا وقت تھا، لیکن 2010 اور اس کے بعد یہ کلچر تبدیل ہوگیا اور ہماری زندگی مسجد کے مرکز سے نکل کر شاپنگ مال میں داخل ہونے لگی۔ ہمارے بچے کہاں بڑے ہو رہے ہیں، یہ ایک تکلیف دہ بات تھی۔ نسلوں کی پرورش شاپنگ مالز میں نہیں بلکہ مساجد میں ہونی چاہیے جیسے کہ ہماری پرورش ہوئی تھی۔‘
مسجد میں پیدا اور پرورش پانے والے بچے
احمد خان کے بقول انہوں نے 2016 میں اپنے بچوں محمد اور حمزہ کے ساتھ مساجد کا دورہ شروع کیا اور بیٹی مریم کی پیدائش کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔
بقول احمد: ’بچوں میں مریم کو مساجد جانا سب سے زیادہ پسند ہے۔۔ وہ خوشی خوشی ہمارے ساتھ جاتی ہے۔ ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی نسلوں کی پرورش مساجد یا محلے کی مل جل کر رہنے والی ثقافت میں نہیں کی۔ ہم وہاں سماجی تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں کیونکہ مسجد اپنے معنی کے لحاظ سے ایک اجتماعی مرکز ہے۔ ہم یہیں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے یہاں مل جل کر رہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے خاندان میں ایک روایت رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد خان نے بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے مسجد فاتح کا دورہ کیا۔ ’ہماری ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ہم نے فاتح سلطان محمد مسجد کا دورہ کیا جہاں ہم نے اپنی پہلی تصویر لی۔ آج اس چار سالہ مہم کے دوران ہم ایک بار پھر فاتح مسجد میں موجود ہیں اور ہم ایک ایسی مسجد میں ہیں جو ہمارے نبی کی میراث لیے ہوئے ہے۔‘
’پھر ہم خرقه شریف مسجد گئے اور یہ ہماری 100 ویں مسجد ہے۔ مساجد کا دورہ کرنا اب ہمارے خاندان میں ایک روایت بن چکی ہے۔ ہم اسے جاری رکھیں گے۔ استنبول میں ہم نے 1920 کی دہائی سے پہلے تعمیر کی گئی عثمانی دور کی مساجد کا دورہ کیا ہے۔ ہم نے ابھی تک استنبول کی تمام مساجد کا دورہ نہیں کیا۔ یہ مکمل کرنے کے بعد ہم دوسرے شہروں کا رخ کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مساجد میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بچوں کے شور مچانے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔‘
ان کی اہلیہ زینب خان نے کہا کہ ’جب بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں تو انہیں جماعت کی نماز میں پریشانی ہوتی ہے۔ وہ بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں کہ یہ مت کرو تاکہ یہاں کوئی شور نہ اٹھے، لیکن میں کہتی ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں کو یہاں آنے دینا چاہیے۔ جب میں ان کی معصومیت کو دیکھتی ہوں تو میں یہ روک ٹوک برداشت نہیں کر پاتی۔ میں ان کا دفاع کرتی ہوں۔ میں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ بچوں کی تربیت مساجد میں ہونی چاہیے تاکہ وہ ان جگہوں کی ہوا کو محسوس کر سکیں۔ اس طرح یہاں سے شاپنگ مالز کی بجائے مسجد کے کلچر نے جنم لیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تمام بچوں میں ہماری سب سے چھوٹی بیٹی مریم کو مسجد جانے کا انتظار رہتا ہے۔ تین سال کی بچی کہہ سکتی ہے ’آج مسجد کا دن ہے‘۔ ہم زیادہ تر پورا خاندان ایک ساتھ مسجد جاتا ہے لیکن بعض اوقات ہم اپنے قریبی حلقے میں دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔‘