خود کو بم سے اڑانے والے شدت پسندوں کا تعلق ’داعش‘ سے: پولیس

سکھر پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل طارق عباس قریشی نے بتایا کہ خود کو دھماکے سے اڑانے والے دونوں ’چالاک دہشت گرد‘ تھے جنہوں نے پولیس کو مفید معلومات حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا۔

28 مئی 2021 کو کراچی کی ایک مارکیٹ میں ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار (اے ایف پی/ فائل)

پاکستان میں ٹرانسنیشنل عسکریت پسند گروپس کا سراغ لگانے پر مامور اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ سندھ میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران دو افراد نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا، جن کے بارے میں قوی امکان ہے کہ ان کا تعلق داعش کے نیٹ ورک سے تھا۔

پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع قصبے اوباڑو کے قریب ہوا، جہاں نے پولیس نے موٹرسائیکل پر سوار دو مشکوک افراد کو روکا تاہم فائرنگ رکنے پر دونوں نے دیسی ساختہ دستی بم سے خود کو اڑا لیا۔

ہلاک ہونے والے ایک شخص کی شناخت عبدالحمید کے نام سے ہوئی ہے جو رحیم یار خان کا رہنے والا تھا جبکہ دوسرے شخص کا نام امداد اللہ پتافی ہے جن کا تعلق خیرپور سے تھا۔

 عرب نیوز کے مطابق سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی میں داعش اور القاعدہ سیل کے سربراہ راجہ عمر خطاب نپیر کو بتایا ہے کہ ’ہمارے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبدالحمید ماضی میں جن کا تعلق لشکر جھنگوی سے رہا ہے خاندان کے ساتھ افغانستان منتتقل ہو گئے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لشکر جھنگوی بلوچستان میں داعش کی مدد کر رہا ہے۔ ’حمید کے پس منظر اور افغانستان کے سفر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ داعش کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ تھے۔‘

راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ’سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ لشکر جھنگوی کا گڑھ رہ چکا ہے اور اس کے نظریات داعش سے ملتے جلتے ہیں۔ حقیقت میں لشکر جھنگوی کارروائیوں کے لیے داعش کی مدد کر رہا تھا۔ بعد میں داعش نے پاکستان میں قدم جما لیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ جنوبی پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی کے متعدد واقعات میں داعش ملوث تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا ایک بڑا نیٹ ورک اس علاقے میں سرگرم ہے۔‘

سکھر پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل طارق عباس قریشی نے عرب نیوز کو بتایا کہ خود کو دھماکے سے اڑانے والے دو لوگ ’چالاک دہشت گرد‘ تھے جنہوں نے پولیس کو مفید معلومات حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ڈی آئی جی کے مطابق ’یہ بڑی بات ہے کہ دونوں نے گولیاں ختم ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور ہتھیار نہیں ڈالے۔ ہمیں شبہ ہے کہ حمید کسی ہدف کی طرف جا رہے تھے اور معلومات خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔‘

طارق عباس قریشی کا کہنا تھا کہ حمید خفیہ اداروں کی واچ لسٹ پر تھے اور پنجاب پولیس نے ان کا نام شیڈول فور میں شامل کر رکھا تھا۔

’حمید بہت سے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے اور اب ہم ان سے ملنے والے موبائل فون کی مدد سے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ سال جنوری میں داعش نے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ان 11 کان کنوں کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری قبول تھی جن کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ برادری سے تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان