باجوڑ کے مسیحی جنہیں میت دفنانے 150 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں مسیحی برادری کے کئی خاندان 40 سال سے آباد ہیں، مگر انہیں اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے آج بھی نوشہرہ جانا پڑتا ہے۔

روبینہ یوسف کی کرسمس کی خوشیاں اس وقت غم میں بدل گئیں جب اس رات ان کے جیٹھ پرویز مسیح انتقال کرگئے۔ اچانک سے کرسمس کی تیاریاں تدفین کی تیاریوں میں بدل گئیں۔ 

خاندان میں موت کا غم تو تھا ہی، مگر دوسرا بڑا مسئلہ تدفین کا انتظام کرنا بن گیا کیونکہ پریشانی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ باجوڑ میں مسیحیوں کے لیے کوئی قبرستان نہیں تھا۔

اس اقلیتی برادری کے لیے روزمرہ کے چیلنج تو اپنی جگہ ہیں ہی مگر کسی کی موت کے بعد میت کو ڈیڑھ سو سے زیادہ کلومیٹر دور نوشہرہ تدفین کے لیے لے جانا، وہاں کے مسیحی قبرستان میں اجازت لینا اور ساتھ ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات کے لیے پیسوں کا بندوبست کرنا اور بھی مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔

مسیحی برداری سے تعلق رکھنے والی 42 سالہ روبینہ یوسف خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں گذشتہ 15 سال سے اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ کرسمس کی تمام تیاریاں کرکے تہوار کے لیے تیار بیٹھی تھیں کہ گھر میں سوگ ہوگیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب روبینہ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ چھوٹے سے گھر میں تین خاندان رہتے ہیں تو وہاں تو بات چیت کرنا ممکن نہ تھا۔ ان سے ملاقات کے لیے بالآخر سول کالونی میں قائم چرچ جانا پڑا۔ وہاں پہنچے تو ہال کے اندر اس برادری کے مرد، بچے اور خواتین اپنی مذہبی رسومات میں مصروف تھے۔

روبینہ بات کرنے سے پہلے کچھ زیادہ ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ باجوڑ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزارنے کی وجہ سے ان پر بھی علاقے کا اثر کافی غالب تھا جہاں خواتین کا میڈیا کو انٹرویو دینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

روبینہ کی آنکھوں میں ان کے جیٹھ کی موت کا غم نمایاں تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ دوردراز علاقے جاکے تدفین کرنے کی پریشانی ان کے لہجے سے عیاں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ میت کو نوشہرہ لے جانے کے لیے ایمبولینس کے اخراجات سمیت مہمانوں کی ضیافت اور رسومات وغیرہ پر 40 سے 50 ہزار روپے خرچہ آتا ہے جو ان کی تنخواہوں سے پورا ہونا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ کرسمس کی تیاریوں میں کافی خرچہ ہو چکا تھا تو بچی کھچی جمع پونجی بھی نہ تھی۔

انہوں نے بتایا: ’ہمیں جیٹھ کی میت نوشہرہ صرف اس لیے لے جانی پڑی کہ یہاں باجوڑ میں مسیحی برادری کا قبرستان نہیں ہے۔ یہ اخراجات باجوڑ کی کلیسیا مل کر ادا کرتی ہے، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو حوصلہ افزائی کے لیے آتے ہیں۔‘

 روبینہ کا کہنا تھا: ’باجوڑ میں مسیحی برادری کے خاندان میں ایک دن کا بچہ بھی اگر انتقال کر جائے تو تدفین کے لیے اسے نوشہرہ لے کر جانا ہوتا ہے اور سارے راستے میں ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ تدفین کی جگہ اور اجازت مل جائے گی یا نہیں۔ اگر باجوڑ میں قبرستان ہوتا تو ایک دن کے بچے کی تدفین ایک گھنٹے میں ہو جاتی۔‘  

انہوں نے بتایا کہ نوشہرہ میں موجود قبرستان فوجی علاقے میں واقع ہے اور وہاں بھی پادری کے خط کے بغیر قبر کی کھدائی بھی نہیں کرنے دیتے تو بغیر اجازت نامے کے کسی کو دفنانا ممکن نہیں۔ ’اجازت ملنے میں بعض اوقات بہت تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور میت ویسی کی ویسی پڑی رہتی ہے۔‘ 

باجوڑ کی اقلیتی برادری کے صدر پرویز مسیح کے مطابق علاقے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ مسیحی آباد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: ’ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب باجوڑ اۤئے تھے۔ اب میری عمر 45 سال سے اوپر ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’جب ہم نوشہرہ میں میت کو مسیحی قبرستان میں تدفین کے لیے لے کر جاتے ہیں تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ وہاں کے لوگ ہم سے ناواقف ہوتے ہیں، ہمیں جانتے تک نہیں۔ ان کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اور ظاہری بات ہے کہ ہمارا رہنا سہنا اِدھر، کلیسیا اُدھر اور ہم ادھر کے رہنے والے ہیں تو پھر وہ ہم کو نوشہرہ میں کیوں تدفین کے لیے جگہ دیں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرویز مسیح نے مزید بتایا کہ باجوڑ میں اگر قبرستان کا مسئلہ نہ ہوتا تو انہیں میت کی تدفین میں دو گھنٹے سے بھی کم وقت لگ جاتا۔ ’ادھر تو ہم ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، تو یہاں اتنا مشکل کام نہیں ہے مگر نوشہرہ میں تو ہم مہمان کے طور پر جاتے ہیں اور ہمیں کوئی اتنا جانتا پہچانتا بھی نہیں۔‘

پرویز نے بتایا کہ کئی بار وہاں پر انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ چار دہائیوں سے باجوڑ میں رہتے ہیں تو وہاں پر تدفین کیوں نہیں کرتے۔ ’لیکن ہم کیا کریں مجبوری ہے۔ میں نے پہلی بار 1998 میں اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ کو قبرستان کے لیے درخواست دی تھی اور اس کے بعد کئی بار درخواستیں دیں لیکن کوئی غور نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ باجوڑ کے منتخب ممبران اسمبلی کو بھی اس حوالے سے بار بار بتایا گیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ ’ہم باجوڑ میں ووٹ دیتے ہیں، یہ لوگ ہمارے ساتھ کافی وعدے کرکے چلے جاتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد پھر ہمارا حال تک نہیں پوچھتے۔‘

تدفین کے بعد لواحقین کے چہلم یا برسی پر قبر پر جانے کے حوالے سے پرویز مسیح  کا کہنا تھا کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ چہلم کے لیے نوشہرہ دوبارہ جاتے ہیں لیکن جاتے ضرور ہیں۔ ’یہ دستور ہے۔ پیسے نہ ہوں تو منت سماجت سے ہم ادھار لیتے ہیں۔‘

’منتخب رکن کو بتا چکے ہیں‘

اس حوالے سے جب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) باجوڑ زمین خان مہمند سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ضم شدہ اضلاع سے اقلیتی برادری کے ایم پی اے ولسن وزیر کو بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت سے فنڈز منظور کروا لیں تو انتظامیہ اراضی خرید لے گی۔ ’ولسن وزیر نے تین بار باجوڑ کا دورہ کیا تھا اور انہیں اس مسئلے سے اگاہ کیا گیا تھا۔‘

زمین خان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ قبرستان تعمیر ہوجائے کیونکہ یہ ان لوگوں کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ’جب ان کے کسی کا انتقال ہو جائے تو ہم تابوت وغیرہ فراہم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کو اۤگاہ کیا جاتا ہے کہ جب ان کو تابوت کی ضرورت ہو تو فراہم کیا کریں۔‘ 

زمین خان نے باجوڑ کی اقلیتی برادری کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ یہ لوگ باجوڑ کی خدمت کر رہے ہیں اور یہاں صفائی کے کام کرتے ہیں۔

اقلیتی برادری کے لوگ کب اور کیوں باجوڑ منتقل ہوئے؟

ضلع باجوڑ میں مسیحی برادری کے لوگ گذشتہ 40 سال سے مقیم ہیں اور اکثر صفائی کے کام سے منسلک ہیں۔ 

پرویز مسیح نے بتایا کہ 1975 میں مسیحی برادری کے دو افراد پہلی بار باجوڑ منتقل ہوئے تھے جس کے بعد ہمارے ساتھ رابطہ کیا کہ یہاں پر ہمیں روزگار مل سکتا ہے۔ ’1977 میں میں پہلی بار باجوڑ اۤیا لیکن یہاں کے ماحول کے ساتھ اۤشنا نہ ہونے کی وجہ سے میں واپس چلا گیا اور مجھے اس وقت ڈر بھی لگا کہ کوئی مجھے یہاں کہیں نقصان نہ پہنچا دے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 1980 میں وہ دوبارہ باجوڑ آئے کیونکہ سرکاری سینیٹری ورکر کی نوکریاں یہاں تھیں۔ ’پھر آہستہ آہستہ ہماری برادری کے لوگ یہاں منتقل ہونا شروع ہوگئے اور اب 40 سے زائد خاندان یہاں پر مقیم ہیں جوکہ زیادہ تر غریب اور سینیٹری ورکر ہیں۔‘

باجوڑ کی ہندو برادری کیا کہتی ہے؟

باجوڑ میں نہ صرف مسیحی برادری کے لوگ رہتے ہیں بلکہ دو ہندو خاندان بھی یہاں پر رہائش پذیر ہیں، اور ان کو بھی اپنے پیاروں کی اۤخری رسومات میں کافی مشکلات رہتی ہیں۔

باجوڑ مائینارٹی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل، جو ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کی آخری رسومات میں مردے کو جلانے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، لیکن میت کو جلانے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے اس وجہ سے وہ اپنی میتوں کو دفناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’باجوڑ سے پشاور یا نوشہرہ تک میت کی منقتلی پر ان کا بھی 30 سے 40 ہزار خرچہ آتا ہے جو ان جیسے غریب افراد کے بس سے باہر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان