کیلیفورنیا سے برآمد شدہ کینو سرگودھا کا ’سن آف سوائل‘ کیسے بنا؟

ایچ بی فراسٹ نے کئی سال تک ’سٹرس فیملی‘ سے تعلق رکھنے والے مختلف پھلوں کی پیوند کاری  کے بعد دوپھلوں ’کنگ‘ اور ’ویلولیو‘ کے اشتراک سے کینو کاپودا تیار کیا تھا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ سرگودھا کا کینو بہترین کینوؤں میں شامل ہے لیکن شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ کینو پہلی مرتبہ سرگودھا میں نہیں بلکہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں اگایا گیا تھا۔

جی ہاں کینو 1960 کی دہائی میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک زرعی سائنسدان ایچ بی فراسٹ نے تیار کیا تھا۔

ایچ بی فراسٹ نے کئی سال تک ’سٹرس فیملی‘ سے تعلق رکھنے والے مختلف پھلوں کی پیوند کاری  کے بعد دوپھلوں ’کنگ‘ اور ’ویلولیو‘ کے اشتراک سے کینو کاپودا تیار کیا تھا۔

کینو کے نام میں ’کن‘ کے حروف ’کنگ‘ سے جبکہ ’نو‘ کے حروف ’ویلولیو‘ سے لیے گئے ہیں۔

یوں ’کینو‘ بھی اردو یا پنجابی کا کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ یہ انگلش کے مختلف حروف سے بنایا گیا لفظ ہے جو ہمارے ہاں اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب اسے اردو یا پنجابی زبان کاہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہو گہ کہ کینو پاکستان یا سرگودھا میں کیسے پہنچا تو یہ سفر بھی ایک دلچسپی کہانی ہے۔

سرگودھا کے ڈائریکٹر ہارٹیکلچر ڈاکٹر بشارت علی کے مطابق کینو کے پودے پاک امریکہ دوستی کے تحت امریکہ کی طرف سے  پہلی بار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (اس وقت کا زرعی کالج لائلپور( کو تحفے کے طور پر دیے گئے تھے۔

یہاں سے یہ پودے پنجاب کے مختلف اضلاع میں کاشت کئے گئے تاہم سرگودھا میں لگائے جانے والے کینو کا ذائقہ اور پھل اتنا اچھا تھا کہ ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔

بشارت علی کے مطابق: ’سرگودھا کی سات تحصیلیں ہیں اور سب میں سٹرس ہوتا ہے۔ پہلے بھلوال تحصیل میں سب سے زیادہ ہوتا تھا،اب بھلوال کی دو تحصیلیں ہوگئی ہیں کوٹ مومن اور بھلوال ان کے تقسیم ہونے سے تحصیل سرگودھا میں سب سے زیادہ 65 ہزار ایکڑ کے قریب سٹرس ہے۔ باقی تحصیلوں میں مل ملا کر ڈھائی لاکھ ایکڑ صرف سرگودھا میں ہے۔‘

ڈاکٹر بشارت کہتے ہیں کہ ’اکثرسننے میں آتا ہے کہ فلاں بندہ ’سن آف سوائل‘ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ کینو ’سن آف سوائل‘ ہے سرگودھا کا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سرگودھا کا ضلع جہلم اور چناب کے درمیان وادی کی طرح  ہے اور اس میں اللہ تعالی نے کچھ ایسے عناصر رکھے ہیں کہ اس جیسے ذائقے دار کینو کہیں اور نہیں ہیں۔

ان کے مطابق: ’آپ بیشک موازنہ کرلیں کوالٹی بھی اچھی ہے، سائز اچھا ہے، خوبصورت ہے لیکن اس کا ذائقہ بہرحال دوسروں سے بہتر ہے۔ اس کی ایسڈ اور مٹھاس کا جو بلینڈ ہے وہ سب سے اچھا ہے۔‘

سرگودھا کے علاقے 34 شمالی کے رہائشی کسان ذوالفقار علی بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جب ان کے بزرگ یہاں آئے تھے تو وہ اس وقت سے سرگودھا میں مالٹوں کے باغات دیکھ رہے ہیں۔

’یہ جو کینو ہے یہاں سرگودھا کا یہ اپنی مثال آپ ہے کیوں کہ اس کا معیار ایسا ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی یہ جاتا ہے وہاں پر لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور اس میں مٹھاس اتنی ہے جو کسی اور علاقے کے کینو میں نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس 150 ایکڑ رقبہ ہے جس پر صرف کینو کے باغات ہی لگے ہوئے ہیں اور اس سے انہیں اچھی آمدن ہو رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرگودھا میں کاشت کیے جانے والے سٹرس کی دیگر اقسام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ان میں کالا بلڈ ہے، لال بلڈ ہے، سفید بلڈ ہے، مسمی ہے اور اس میں گریپ فروٹ ہے، فروٹر بھی اسی میں آتا ہے۔ یہ کم وبیش 15، 16 قسم کے مالٹے ہیں جو سرگودھا میں پائے جاتے ہیں۔‘

پاکستان فروٹس اینڈ ویجٹیبل ایسوسی ایشن کے تخمینوں کے مطابق پاکستان میں کینو کی معیشت کا مجموعی حجم 125 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

اس میں سب سے بڑا حصہ سرگودھا کا ہے جس کی معیشت کا 80 فیصد سے زائد دارومدار کینو کی صنعت پر ہے۔

یہاں سے کینو کی مجموعی پیداوار کا تقریبا 75 فیصد سے زائد حاصل ہو تا ہے اور سرگوھاد میں کینو کے باغات سے ملحق 350 سے زائد فیکٹریوں میں ڈھائی لاکھ افراد ملازمت کرتے ہیں۔

سرگودھا میں کینو کی ایکسپورٹ سے وابستہ اینکر فروٹس کے جنرل منیجر محمد وقاص کے مطابق کینو کی ایکسپورٹ کا آغاز تویکم دسمبر کے بعد ہو تا ہے۔

تاہم اس سلسلے میں وہ جون، جولائی کے مہینے سے ہی مختلف علاقوں میں جا کر کینو کے باغات کا جائزہ لینے کے بعد ان کی خریداری کا عمل شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کی نگرانی کر کے اچھے معیار کا پھل حاصل کر سکیں۔

ان کے مطابق: ’اس کے بعد ہم مزدور وغیرہ جمع کرلیتے ہیں اور پھر نومبر سے کینو باغات سے توڑ کر فیکٹری لانا شروع کر دیتے ہیں۔‘

فیکٹری لائے جانے والے کینو سب سے پہلے آٹومیٹک پلانٹ پر واشنگ اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ سے گزرتے ہیں جس کے بعد ان پر گرم ویکس کی کوٹنگ کی جاتی ہے تاکہ ایکسپورٹ کے دوران ان کی تازگی اور معیار برقرار رہ سکے۔

بعدازاں ان کی مشین کے ذریعے ہی گریڈنگ کر کے انہیں مختلف ممالک کو برآمد کرنے کے لیے گتے کے ہوا دار ڈبوں یا پلاسٹک کی ٹوکریوں میں پیک کر کے کولڈ سٹوریج میں زخیرہ کر لیا جاتا ہے۔

محمد وقاص کے مطابق جیسے ہی کینو کی ایکسپورٹ کا سیزن شروع ہوتا ہے وہ مختلف ممالک سے ملنے والے آرڈرز کے مطابق کولڈ سٹوریج سے مال کنٹینرز پر لوڈ کروا کے بندرگاہ پر بھجوا دیتے ہیں۔

’زیادہ تر کینو سمندر کے ذریعے دبئی جاتا ہے، روس جاتا ہے، ملائیشیا، بنگلہ دیش، کینیڈا سب جگہ ہمارا کینو ایکسپورٹ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ سرگودھا سے سالانہ ساڑھے تین لاکھ ٹن سے زیادہ کینو دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا