نیب کے ہاتھوں گرفتار پی ٹی آئی کے سبطین خان کون ہیں؟

سبطین خان پر الزام ہے کہ انہوں نے ق لیگ کے دور حکومت میں بطور صوبائی وزیر بغیر ٹینڈر من پسند کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دیا۔

(تصویر بشکریہ فیس بک )

قومی احتساب بیورو(نیب) نے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کےوزیر علیم خان کے بعد ایک اور صوبائی وزیر، وزیر جنگلات سبطین خان کو جمعے کی شام گرفتارکرلیا۔

گرفتاری کے بعد سبطین خان کو احتساب عدالت میں پیش کر کے دس روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔

انہیں مسلم لیگ ق کے دور حکومت میں بطور صوبائی وزیر معدنیات بغیر ٹینڈر من پسند کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دینے کے کیس میں گرفتارکیا گیا۔

ان کے اہل خانہ کے مطابق نیب نے طلبی کا کوئی نوٹس جاری نہیں کیا اور انہیں نیب آفس کے ایک افسر نے بدھ کو نیب آفس لاہور آنے کا کہا تھا تاکہ ان سے کیس کی تفصیلات معلوم کی جا سکیں۔

سبطین کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ انہیں نیب پانچ سال پہلے اس کیس میں کلین چٹ دے جا چکا ہے لہذا دوبارہ اس کیس میں گرفتاری غیر قانونی ہے۔

گرفتاری کے بعد سبطین خان نے وزارت سے تحریری استعفی وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوایا دیا۔

سبطین خان کا سیاسی وخاندانی پس منظر

پنجاب کے ضلع میانوالی کے جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے سبطین خان نے سیاست کا آغاز مسلم لیگ ق سے کیا۔

انہوں نے میانوالی سے 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی اور وزیر معدنیات بنے۔ اسی دوران 2008-2007میں ان کے خلاف انسداد کرپشن اور نیب میں ضلع چنیوٹ سے معدنیات نکالنے کا کروڑوں روپے کا ٹھیکہ من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا مقدمہ درج ہوا۔

2008کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکست کھا گئے۔ انہوں نے 2011 میں تحریک انصاف کو سیاسی مسکن بنایا کیونکہ ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم عمران خان کے ایچی سن سکول ،کالج میں کلاس فیلو تھے۔

2013 کے عام انتخابات ہوئے توتحریک انصاف کو پنجاب میں خاطر خواہ نشستیں نہ ملیں لیکن سبطین خان میانوالی سے صوبائی نشست پر کامیاب ہوگئے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران وہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر نامزد ہوئے۔

2013سے 2018تک انہوں نے اپنی جماعت کے 35 اراکین کے ساتھ مل کر بھر پوراپوزیشن کا کردارادا کیا۔

جب 2018میں عام انتخابات ہوئے تو وہ اپنی میانوالی سے آبائی نشست پی پی 88،جو نئی حلقہ بندیوں کے بعد بنایا گیا، اس سے پہلے یہ پی پی46حلقہ تھا، دوبارہ منتخب ہوگئے۔

موجودہ حکومت میں انہیں صوبائی وزیر جنگلات، جنگلی حیات اور فشریز کا قلمدان سونپا گیا۔ان کے دو بیٹے ہیں جو زمینداری کرتے ہیں۔

سبطین خان کے بیٹے علی جعفرخان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے والد سیاست میں عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔

علی جعفر نے کہا کہ بارہ سال بعد نیب نے ان کے والد کو ایسے مقدمہ میں گرفتارکیا جس کا براہ راست ان کے والد سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

علی کے مطابق ان کے وکیل نے کیس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا اس میں کوئی جرم ظاہر نہیں ہورہا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیس میں بری ہونے کی صورت میں ان کی عزت پر جو داغ لگا اس کا ازالہ کون کرے گا؟

انہوں نے دعوی کیا کہ سابق سینیئر وزیر علیم خان کے بعد ان کے والد کو گرفتار کر کے سیاسی توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔

عدالتی کارروائی اور نیب کا موقف

نیب نے گرفتاری سے اگلے روز ‎ہفتے کو پنجاب ميں تحريک انصاف کے صوبائی وزیر سبطين خان کو 12 سال پرانے مقدمے ميں لاہور کی احتساب عدالت ميں پيش کیا۔

‎نيب پراسيکيوٹر نے موقف اختيار کیا کہ ملزم نے ق ليگ کے دور ميں بطور وزير معدنيات غير رجسٹرڈ کمپنی کو بغير ٹينڈر ٹھيکہ ديا اور پنجاب منرل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کمپنی کا جوائنٹ وینچر کيا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر نيب نے اس معاملے کی تحقيقات کيں۔

‎ملزم کے وکيل نے الزامات کی ترديد کرتے ہوئے کہا کہ سبطين خان نومبر 2007 تک وزیر رہے جبکہ جوائنٹ وینچر اگست 2008 کو ہوا۔ یہ معاہدہ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کیا۔

‎وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ نیب کو ہائی کورٹ نے کمپنی کے سی ای او ارشد وحید کے خلاف انکوائری کا حکم دیا لیکن وہ امریکہ چلے گئے۔

سبطین خان کو اینٹی کرپشن نے 2016میں انکوائری کے بعد بے گناہ قرار دیا جبکہ نیب نے بھی ان کے خلاف پانچ سال پہلے کیس بند کر دیا تھا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد مزید انکوائری کے لیے10 روزہ جسمانی ريمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم کو 25 جون کو دوبارہ پيش کرنے کا حکم ديا۔

سیاسی توازن کی کوشش؟

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق نیب کی جانب سے پرانے کیسوں میں گرفتاریاں اور انکوائری کے دوران ملزموں کو حراست میں لینے کے بعد شواہد اکھٹے کرنے کا عمل شفاف احتساب پر سوالیہ نشان ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری، نواز شریف، حمزہ شہباز ، فریال تالپوراور شہباز شریف کی گرفتاریوں کے بعد پہلے حکومتی سینیئر صوبائی وزیر پنجاب علیم خان کو گرفتار کیا گیا بعد میں انہیں رہائی بھی مل گئی اور اب صوبائی وزیر سبطین خان کی پرانے مقدمہ میں گرفتاری ’سیاسی توازن‘ قائم کرنے کی کوشش لگتی ہے، کیونکہ بیوروکریٹ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری کو ایک سال گزرگیا ان کے خلاف کرپشن کا کوئی بڑا ثبوت منظر عام پر آیا نہ ہی ان کو سزائیں ہوئیں۔

مبصرین کے مطابق، نیب ان کے ذریعے کوئی بڑی ریکوری بھی ظاہر کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔

تاہم، نیب محض ’سیاسی توازن‘ کے لیے گرفتاریوں کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ تمام کیسز کو میرٹ پر چلایا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست