افغان آرٹسٹ نے 20 ٹن کچرا امریکی عوام کو بطور ’تحفہ‘ بھیج دیا

عزیز ہزارہ نے بگرام کے فوجی اڈے سے حاصل کیے گئے اس کباڑ کے کنٹینر کو ’آرٹ‘ قرار دیا ہے، جو طویل سفر کے بعد امریکہ پہنچے گا۔

ایک افغان لڑکی بگرام ایئر بیس سے گذشتہ برس جون میں ملنے والا  آہنی ملبہ اٹھا کر لے جا رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عزیز ہزارہ ایک غیر معمولی شپمنٹ کی کھوج میں ہیں اور وہ سامان ہے افغانستان میں سابق امریکی فوجی اڈے بگرام ایئر بیس سے 20 ٹن اکٹھا کیا گیا کچرا۔

یہ کچرا مغرب یعنی اپنے آغاز کی طرف دوبارہ لوٹ رہا ہے۔ راستے میں یہ کراچی اور خلیج سے گزرے گا اور بحر ہند کے سفر کے بعد بحر اوقیانوس عبور کرکے امریکہ واپس پہنچے گا۔

مشرق وسطیٰ کی ویب سائٹ ’دا نیشنل نیوز‘ کے مطابق اس وقت کابل اور برلن میں کام کرنے والے اس فنکار کو اندازہ ہے کہ اس سفر میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اس کے دوران اس کچرے کو عالمی بندرگاہوں اور شہروں پر مشتمل اس راستے سے گزرنا پڑے گا، جس سے امریکی فوجی اور ہتھیار جنگ کے دوران افغانستان پہنچنے۔ جب یہ آخر کار امریکی سرزمین پہنچے گا تو اس طرح یہ اپنے ’گھر‘ پہنچ جائے گا۔ عزیز ہزارہ اسے ’امریکی عوام کے لیے اپنا تحفہ‘ قرار دیتے ہیں۔

امریکہ اس طرح کی درآمد پر پابندی عائد کرتا ہے حالانکہ وہ ہر سال جنوب مشرقی ایشیا کو خود ٹنوں کچرا برآمد کرتا ہے۔ عزیز نے اس کباڑ سے بھرے کنٹینر کو ’آرٹ‘ قرار دیا ہے۔ قواعد کی جانچ پڑتال کے بعد عزیز وضاحت کرتے ہیں کہ اگر یہ کامیابی سے اپنے ملک پہنچ جاتا ہے تو اسے واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا: ’جب یہ پہنچے گا تو یہ امریکیوں کا ہو جائے گا۔ ایک بار جب یہ امریکہ پہنچ جاتا ہے تو آپ اسے ختم نہیں کر سکتے۔‘

جب امریکی فوجی 20 سالہ جنگ کے بعد گذشتہ سال افغانستان سے جلد بازی میں نکلے تو وہ اپنے پیچھے موت، افراتفری اور کچرا چھوڑ گئے۔ بگرام ایئربیس پر، جہاں 2001 سے 2021 تک ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی خدمات انجام دے چکے تھے، ایک شاپنگ سینٹر اور بہت سے فاسٹ فوڈ ریستوران آباد تھے، لیکن اب وہاں کچرے، زہریلے پلاسٹک، سکریپ دھات اور الیکٹرانک فضلے کے ڈھیر باقی ہیں۔

1992 میں افغانستان کے وسطی صوبے وردک میں پیدا ہونے والے عزیز اور ان کا خاندان بچپن میں کابل منتقل ہو گئے تھے۔ روسی جنگ، خانہ جنگی اور امریکی حملے کی وجہ سے تباہ ہونے والے دارالحکومت کی زندگی نے ان کی زیادہ تر یادوں اور عالمی نقطہ نظر کو متاثر کیا۔

عزیز بتاتے ہیں کہ کابل میں ان کے بچپن کا دور ایک ’خوفناک شو‘ ہے۔ دوسری طرف جنگ اس قدر معمول بن چکی ہے کہ آپ کو اس کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اسے دور سے دیکھ نہ لیں۔

ویڈیو اور فوٹوگرافی سے لے کر تنصیب اور پرفارمنس تک، ان کا کام سوویت اور امریکی دونوں طرح کی جنگوں اور ان کے قبضے کے طویل اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ عزیز اکثر اپنے فن کے لیے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہ ایک ایسا انتخاب ہے، جو اپنے بچپن کے ساتھ ان کے ’جنون‘ کی عکاسی کرتا ہے۔

دسمبر میں انہوں نے اپنے ’بو ایکو‘ (2019) نامی فن پارے کے لیے پنچوک آرٹ سینٹر، کیئف سے ایک لاکھ ڈالر کا فیوچر جنریشن آرٹ انعام جیتا۔ پانچ چینلوں پر مشتمل اس ویڈیو انسٹالیشن میں نوجوان لڑکوں کو کابل کے پتھریلے ٹیلوں پر چڑھنے کی جدوجہد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب شدید ہوائیں انہیں گرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

بچے کھلونے کے بگل پر پھونکتے ہیں اور چیختی ہوئی آندھیوں میں کمزور آوازیں پیدا کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں بے فائدہ ہیں، ان کی سانس ختم ہو جاتی ہے، جب وہ ایک طرح کے کنٹرول یا پہچان کے لیے شور مچاتے ہیں۔

ایک اور ریہرسل (2020) میں دو لڑکے ایک مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔ ایک لڑکا گولیوں کی آواز کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے، جب وہ دوسرے کے کندھوں پر بیٹھتا ہے، جو اسے ہتھیار کی طرح گھماتا ہے۔

عزیز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بہت سے بچوں نے اس طرح کی آوازوں کی نقالی میں مہارت حاصل کرلی ہے، یہاں تک کہ طالبان کے زیر استعمال کلاشنکوفوں اور امریکی فوج کی ایم 16 رائفلوں کے درمیان فرق کو بھی جانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ ایک معمول بن چکی ہے۔ ہم اس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں، ہم اس کے ساتھ مرتے ہیں۔ ہم اسے یاد کرتے ہیں، ہم اسے مناتے ہیں اور ہمیں یہ یاد ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے کردار نہ صرف معصومیت کے کھونے کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ جنگ کو ہوا دینے والی لڑائی کی ایک اور قسم کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کابل میں جو طالبان ہیں، یہ وہ بچے ہیں جو پاکستان کے پناہ گزین کیمپوں میں (1980 اور 1990 کی دہائی کے وسط میں) پلے بڑھے تھے۔ عزیز کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام ’جے از فار جہاد‘ مہمات سے گزرے ہیں، انہوں نے 50 ملین ڈالر کے امریکی حمایت یافتہ تعلیمی پروگرام کا حوالہ دیا، جس میں ’مجاہدین کی نصابی کتابوں‘ کے استعمال کو فروغ دیا گیا تھا۔ ان کتابوں اور اسباق کا مقصد سوویت یونین سے نمٹنے میں مدد کے لیے مذہبی جنگ کو مزید آگے بڑھانا تھا۔

عزیز کا کہنا ہے کہ بنیاد پرستی کا یہ عمل ایک امریکی منصوبہ ہے، تاہم ان کے آرٹ میں سامراجی تشدد کی مضحکہ خیز مذمت اور ملک کے مستقبل کی المناک پیش نمائی کی گئی ہے۔ 

ویب سائٹ ’دا نیشنل‘ کے مطابق یہ فنکار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم کیا سچ جانتے ہیں کہ جنگ انخلا کے ساتھ ختم نہیں ہوتی اور یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے کے ساتھ بھی نہیں۔ یہ داغ ہے، داغ ڈالتی ہے اور چپک جاتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کی خواہش کر سکتے ہیں لیکن یہ دھونے سے صاف نہیں ہوتے۔

آج افغانستان کو نہ صرف ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت اور لاکھوں کے بےگھر ہونے کے غم کا سامنا ہے بلکہ ایک انسانی بحران بھی ہے جو تیزی سے بگڑ رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ