خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات: پی ٹی آئی اب بھی مرکزی سیاسی قوت؟

تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق ’پہلے مرحلے کے انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے اس سے سیاسی اور عوامی سطح پر یہ تاثر ابھرا تھا کہ پی ٹی آئی کا خیبر پختونخوا سے بوریا بستر گول ہونے والا ہے تاہم ضمنی الیکشن سے یہ تجزیے غلط ثابت ہوئے۔‘

19 دسمبر 2020 کی اس تصویر میں پشاور میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے تحت  خواتین پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالتے ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا میں 19 دسمبر کو سترہ اضلاع میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جن پولنگ سٹیشنوں پر ناخوشگوار واقعات سامنے آئے وہاں گزشتہ اتوار تیرہ فروری کو دوبارہ پولنگ کروائی گئی۔

کُل 13 اضلاع کے 568 پولنگ سٹیشنوں میں یہ انتخابات انجام پائے۔

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرکاری نتائج کو مرتب ہونے میں دو دن کا وقت لگ سکتا ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ ’حتمی وغیر حتمی نتائج میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔‘

اس ری پولنگ کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق، پشاور سٹی میئر کی نشست جمعیت علماء اسلام ف جیتنے میں کامیاب رہی، جب کہ اسی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار رضوان خان بنگش دوسرے نمبر پر، اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار شیر رحمن تیسرے نمبر پر رہے۔

سٹی میئر کی نشست پر دوسرا اہم مقابلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں رہا، جہاں  غیر حتمی نتائج کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمر امین گنڈا پور سبقت لے جانے میں کامیاب رہے۔ دوسرے نمبر پر جمعیت علماء اسلام ف کے امیدوار کفیل نظامی اور تیسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی رہے۔

 دوسری جانب، ضلع بنوں کے تحصیل بکا خیل میں سٹی میئر نشست پر مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی، جے یوآئی ف اور آزاد امیدواروں کے درمیان رہا، جس میں سبقت اے این پی کے امیدوار ولی اللہ خان کو حاصل رہی، جب کہ دوسرے نمبر پر جے یو آئی ف کے امیدوار معمور خان وزیر ہیں۔ جب کہ اس تحصیل میں پی ٹی ائی کے امیدوار مامون رشید کو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

ضمنی الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی ہار جیت پر تجزیے

اتوار کے روز  تیرہ اضلاع میں ہونے والے ضمنی انتخابات مختلف حوالوں سے اہم رہے۔ جہاں ایک جانب حکمران جماعت کو پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں دھچکا لگا وہیں ان کے لیے عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنا اور دوسرے مرحلے میں اپنی جیت ممکن بنانا ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا۔

جمعیت علماء اسلام نے اگرچہ پشاور میئر سیٹ کا اہم ترین عہدہ اپنے نام کردیا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان جو اس جماعت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں وہ 19 دسمبر میں ہار گئے تھے، وہاں، ایسے حالات میں کہ ڈی آئی خان سے حکمران جماعت کا ایک صوبائی وزیر اور ایک وفاقی وزیر جو کہ دونوں بھائی ہیں، کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی جو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہ چکے ہیں، جیتنا ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔

اگرچہ ضمنی الیکشن میں پشاور کے کُل سات پولنگ سٹیشنوں میں چھ پر سٹی میئر کے لیے الیکشن ہورہا تھا اور جس کے لیے عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدوار نے زیادہ ووٹ لیے تو سٹی میئر زبیر علی کی جگہ رضوان بنگش ہوسکتے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں نے پیشن گوئی کی تھی کہ ایسا ہونا مشکل ہوگا کیونکہ جے یوآئی بھاری ووٹ سے آگے تھی۔

واضح رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ری پولنگ میں اہمیت کی بنیادی وجہ  اس علاقے میں تین بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیات ہیں۔ جہاں ایک جانب، پی ٹی آئی کے امیدوار عمر امین گنڈا پور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور اورصوبائی وزیر فیصل امین گنڈاپور کے بھائی ہیں، تو یہی علاقہ جمعیت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمن کا آبائی حلقہ بھی ہے۔

تیسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی کےفیصل کریم کنڈی کا بھی یہ آبائی علاقہ ہے اور اپنے علاقے میں اچھی خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی سیاست، سیاسی خاندانوں، اور گزشتہ روز کے الیکشن کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے معروف صحافی وسیاسی تجزیہ نگار وقاص شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی ڈیرہ اسماعیل خان کی سیٹ پر کافی متوجہ رہی۔ ’علی امین گنڈا پور اور ان کے بھائی وصوبائی وزیر فیصل امین نے اپنے بھائی سے مکمل تعاون کرتے ہوئے نہ صرف حکومتی وسائل کا استعمال کیا بلکہ علی الاعلان کہا کہ اگر ان کے حلقے کے عوام کسی اور کو ووٹ دیں گے تو اس امیدوار کو حکومت فنڈ نہیں دے گی۔‘

وقاص شاہ نے مزید بتایا کہ ڈی آئی خان میں مولانا نے کمزور امیدوار کو کھڑا کیا اور مہم بھی اتنی اچھی نہیں چلائی۔ ’اگرچہ مولانا فضل الرحمان خود ڈی آئی خان گئے تھے، جلسہ کیا تھا، وہاں لوگوں سے باتیں کیں، لیکن امیدوار کے چناؤ کا فیصلہ درست نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہار گئے۔اگر اس کی جگہ خود مولانا کا بھائی ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔‘

وقاص شاہ نے پہلے مرحلے اور ضمنی انتخاب کو پیش نظر رکھتے ہوئےدوسرے مرحلے اور جنرل الیکشن کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات جیتنا پی ٹی آئی کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس الیکشن میں ہمیں مستقبل کی جھلک نظر آتی ہے۔

دوسری جانب،پشاور سے سینئر صحافی محمود جان بابر نے تجزیہ دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے مرحلے کے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے اس سے سیاسی اور عوامی سطح پر یہ تاثر ابھرا تھا کہ پی ٹی آئی کا خیبر پختونخوا سے بوریا بستر گول ہونے والا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ’ضمنی الیکشن سے یہ تجزیے غلط ثابت ہوئے اور یہ معلوم ہوا کہ حکمران جماعت ابھی بھی خیبر پختونخوا میں ایک مرکزی پولیٹیکل فورس ہے اور ان کے پیروکار ابھی بھی اپنی جماعت کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’پی ٹی آئی نے تھوڑی سی محنت اور ہوم ورک سے اپنی پوزیشن بہتر کرلی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے سامنے مہنگائی، کرونا کے علاوہ ان کے اندرونی معاملات سراٹھائے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پہلے مرحلے کے الیکشن میں خود ان کے اپنے لوگ اپنے مد مقابل امیدواروں کو سپورٹ کررہے تھے۔‘

محمود جان بابر نے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف نے دوسرے مرحلے اور جنرل الیکشن کے لیے اسی طرح اپنے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے ساتھ بیرونی عوامل پر بھی توجہ دی تو وہ اپوزیشن کو ہرانے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوسکتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے  پہلے مرحلے کے ضمنی انتخابات میں کُل چھیاسٹھ تحصیلیں ہیں جہاں غیر حتمی نتائج کے مطابق، جے یوآئی 23 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر، پی ٹی آئی 18سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور آزاد امیدوار 10سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

اس طرح عوامی نیشنل پارٹی 66 تحصیلوں میں سات،  پاکستان مسلم لیگ ن تین، پاکستان پیپلز پارٹی ایک، تحریک اصلاحات پاکستان پارٹی دو، اور جماعت اسلامی ایک نشست حاصل کرچکی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی وتجزیہ نگار عرفان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پہلے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کا خیبر پختونخوا سے صفایا ہوگیا ہے، جب کہ پی ایم ایل این کے حوالے سے ان کاکہنا ہے کہ دوسرے مرحلےکے انتخابات میں ہوسکتا ہے ہزارہ جو کہ ان کا گڑھ ہے وہاں سے بھاری ووٹ لے سکے۔ اس کے علاوہ شانگلہ اور سوات میں بھی ان کا کچھ ووٹ ہے۔‘

عرفان خان نے بتایا کہ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ پہلے مرحلے اور ضمنی انتخاب میں جے یوآئی اور اے این پی دونوں کو اپنے حلقوں سے ووٹ نہ مل سکا۔

’ڈی آئی خان جے یوآئی کا گڑھ ہے، لیکن وہاں ناکام ہوا۔ اس طرح چارسدہ اے این پی کا گڑھ ہے لیکن وہاں ناکام رہا۔ تاہم دونوں کےمقابلے میں اول الذکر کو پشاور سٹی میں کامیابی حاصل ہونا حکمران جماعت ودیگر کے لیے بہت بڑا چیلنج اور خطرہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نےمزید کہا کہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ حاجی غلام علی جو کہ موجودہ پشاور میئر زبیر علی کے والد ہیں، نہ صرف سینیٹر رہ چکے ہیں بلکہ وہ پشاور کے سابق ناظم اعلی بھی رہ چکے ہیں۔

’حاجی غلام علی کو یہ گُر معلوم تھا کہ پشاور سٹی جس میں نو صوبائی حلقے ہیں کی سیاست کیا ہے اور ان کو کس طرح جیتنا ہے۔ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ امیدواروں کے چناؤ میں یہ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرچکی ہیں۔ جیسے کہ اے این پی کا امیدوار شیر رحمان ایک غیر مقبول شخص تھا۔ پی پی پی بھی اگر نوجوان زرک کے مقابلے جانی پہچانی شخصیت لاتی تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ اور یہی غلطی پی ٹی آئی سے بھی ہوئی۔‘

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں 19 دسمبر کو پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں جن پولنگ سٹیشنوں پر ناخوشگوار واقعات ہوئے تھے یا جہاں کیس امیدوار کی موت واقع ہوئی تھی، ان تیرہ اضلاع میں پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، کوہاٹ، ضلع خیبر،کرک،  باجوڑ اور بونیر شامل ہیں، جہاں الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے مطابق، کُل 568 پولنگ سٹیشنوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 710472 ہے۔ ان میں سے 347548 خواتین ووٹر اور 362924 مرد ووٹرز ہیں۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے دوسرے مرحلے کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 31 مارچ کو ہوں گے۔

الیکشن کمیشن خیبر پختونخواکے مطابق،31 مارچ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے آج سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کی آخری تاریخ اٹھارہ فروری ہے۔                                                                                                            

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست