خیبر پختونخوا بلدیاتی الیکشن: دوسرے مرحلے میں تاخیر کے فیصلے پر تنقید

بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ موخر کیے جانے کی عدالتی ہدایات کو جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کروانے والے پی ٹی آئی کے اپنے ہی لوگ تھے۔

19 دسمبر 2020 کی اس تصویر میں پشاور میں منعقدہ بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے تحت  خواتین پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالتے ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں 27 مارچ کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات موخر کروانے کی ہدایات پر صوبے کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کافی تنقید کی جارہی ہے اور صوبے کی سیاسی فضا تناؤ کا شکار ہوگئی ہے۔

جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے جہاں اس فیصلے کو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، وہیں انہوں نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف پر الزام عائد کیا ہے کہ عدالت میں رِٹ پٹیشن دائر کروانے والے پی ٹی آئی کے اپنے ہی لوگ تھے۔

خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں پہلے مرحلے کے تحت بلدیاتی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 18 اضلاع میں دوسرے مرحلے کے تحت بلدیاتی انتخابات سے متعلق اعلامیہ گذشتہ ماہ جنوری میں جاری کیا تھا۔

تاہم اس دوران ہزارہ کوہستان کے ایک مقامی شخص ملک اورنگ زیب اور خیبر پختونخوا کے ایک معروف وکیل سردار ناصر سلیم اور دیگر نے عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے ممکنہ برف باری اور خراب موسم کو وجہ بنا کر پہاڑی علاقوں میں الیکشن تاخیر سے کروانے کی درخواست کی۔

درخواست گزاروں کا موقف سننے کے بعد عدالت نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرواتے ہوئے الیکشن کمیشن کو رمضان کے بعد انتخابات کروانے کا حکم دیا، جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ای سی پی نے پانچ فروری کو نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن دفتر کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 27 مارچ کو بلدیاتی انتخابات تمام 18 اضلاع میں موخر کر دیے گئے ہیں اور فی الحال وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا انتخابات مئی میں ہی ہوں گے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا: ’عدالت نے صرف رمضان کے بعد الیکشن کروانے کا حکم دیا ہے تو امکان ہے کہ مئی میں ہوں، لیکن اس کا ابھی الیکشن کمیشن نے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ای سی پی سپریم کورٹ میں چیلنج کرے۔‘

اپوزیشن کا ردعمل

مسلم لیگ ن کے صوبائی ترجمان و صوبائی رکن اسمبلی اختیار ولی نے الزام عائد کیا ہے کہ جن درخواست گزاروں نے عدالت میں درخواست دی تھی دراصل انہیں پی ٹی آئی کی مدد، آشیرباد اور تعاون حاصل تھا۔

اختیار ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ستائیس مارچ کو کسی قسم کی برف باری کا امکان نہیں ہے اور یہ محض انتخابات ملتوی کروانے کا ایک بہانہ ہے۔ ’دراصل  دوسرے مرحلے کا الیکشن پی ٹی آئی کے لیے کافی خوفناک ہے۔ وزیراعلیٰ محمود خان سوات اور ملاکنڈ میں ہم سے جیت ہی نہیں سکتے تھے۔‘

انہوں نے کہا: ’پہلے مرحلے میں بھی تحریک انصاف حکومت نے ہماری منتیں کی تھیں کہ آئیں وزیر اعلیٰ کے ساتھ ایک میٹنگ کریں اور مشترکہ کوشش سے بلدیاتی انتخاب کو منسوخ کرتے ہیں۔‘

ن لیگ کے صوبائی ترجمان نے کہا کہ 27 مارچ کے لیے ان کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں اور انہوں نے نامزد امیدواروں کا اعلان بھی کرلیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کے بعد ان کی جماعت سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں شامل اپر اور لور دیر کے علاقے کو جماعت اسلامی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ محمود خان اور سینیئر پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے دیر کے دورے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی نے تنقید کرتے ہوئےکہا تھا کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد حکمران جماعت کے دورے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔

جماعت اسلامی کے صوبائی صدر اور سینیٹر مشتاق احمد خان نے حالیہ فیصلے پر اپنی پارٹی کے موقف کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت مسلسل انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی میں ملوث پائی گئی ہے اور عوامی رائے بدلنے کے لیے صوبائی حکومت نے اربوں روپے ضلعی حکومت کو منتقل کردیے ہیں۔

’یہاں تک کہ الیکشن شیڈول جاری ہوجانے کے بعد کئی اضلاع میں اسسٹنٹ و ڈپٹی کمشنران کے تبادلے کیے گئے اور دوسرے مرحلے کے انتخابات والے اضلاع میں اپنے من پسند لوگ تعینات کیے گئے۔‘

سینیٹر مشتاق نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کو غلط معلومات اور اعداد وشمار پہنچا کر حکمران جماعت نے اپنے مفاد کی خاطر الیکشن ملتوی کروا دیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم عمران خان کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن سے بھاگنے نہیں دیں گے۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

دوسری جانب اپوزیشن کے ان تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی خان سیف نے انہیں ’بے بنیاد‘ قرار دے دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بیرسٹر محمد علی خان نے بتایا: ’سپریم کورٹ نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ انتخابات 27 مارچ کو ہوں۔ عدالت عالیہ نے احکامات صادر کیے تھے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور بروقت ہوں، تاہم قدرتی عوامل بیچ میں آگئے۔‘

لیکن ان کے اس بیان کی نفی کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’ماضی میں بھی مارچ کے مہینے میں ان پہاڑی علاقوں میں انتخابات ہوئے ہیں تو اب ایسا کیا مسئلہ ہوگیا کہ انتخابات کو موخر کروانا پڑگیا۔‘

اس حوالے سے مشیر اطلاعات نے کہا کہ ’ماضی میں کیے گئے فیصلے پتھر پر لکیر نہیں ہیں اور وہ غلط بھی ہوسکتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’برف باری کے موسم میں اکثر کوہستان، اپر دیر اور چترال کے بعض لوگ میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جو اپریل میں واپس لوٹنا شروع کرتے ہیں۔ برف باری کے موسم میں اکثر علاقوں میں مہم چلانا مشکل ہوتا ہے اور اس سے نہ صرف امیدواروں بلکہ ووٹروں کے لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے اور ووٹر ٹرن آؤٹ بھی کم ہوتا ہے۔‘

انہوں نے دوسرے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’صرف دو ماہ کے عرصے میں حکومت نہ تو کوئی ڈیم بنا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی اور بڑا ترقیاتی منصوبہ انجام دے سکتی ہے، لیکن اگر پھر بھی کوئی کہتا ہے کہ ہم نے عدالت کو گمراہ کر دیا ہے تو یہ دراصل عدلیہ پر الزام ہے اور اس کا جواب حکومت کی بجائے عدالت سے مانگا جائے۔‘

بیرسٹر سیف نے الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد حکمران جماعت کی جانب سے کیے جانے والے دوروں کی صداقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دراصل اپوزیشن کا اشارہ دیر کے میٹرنٹی ہسپتال کی طرف ہے، جس کا وزیراعلیٰ محمود خان حال ہی میں معائنہ کرنے گئے تھے۔

’انتخابی ضابطہ اخلاق یہ ہیں کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد کوئی سیاسی جماعت نئے ترقیاتی منصوبے کا اعلان یا افتتاح نہیں کرسکتی۔ فنڈز کا اعلان نہیں کرسکتی۔ لیکن اگر یہ سب شیڈول جاری ہونے سے قبل ہوا ہو تو کسی منصوبے کا معائنہ محض اس لیے منسوخ نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات ہو رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’جہاں اربوں روپے فنڈز کی منتقلی کی بات ہے کہ حکومت نے ضلعی حکومتوں کو یہ فنڈز دے کر آنے والے انتخابات اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی ہے تو یہ ایک بے منطق دلیل ہے۔ فنڈز کی منتقلی ایک باقاعدہ عمل ہے جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں، جو اس عمل کی جانچ پڑتال کرتی ہیں اور ایک طریقہ کار سے گزر کر عموماً ہر سال مارچ یا اپریل میں فنڈز کی منتقلی ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن کا معترض ہونا عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کے مترادف ہے۔‘

مشیر اطلاعات محمد علی سیف نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو واقعی اعتراض ہے تو بجائے میڈیا میں بیانات دینے کے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے رِٹ پٹیشن دائر کردیں۔

خیبر پختونخوا کے معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار وقاص شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض پہاڑی علاقوں میں شدید موسم کی وجہ سے حالات انتخابات کے لیے قدرے ناموزوں ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک سچ ہے کہ پی ٹی آئی کو موجودہ وقت میں جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کے پیش نظر دوسرے مرحلے کے انتخابات موخر ہونے سے حکمران جماعت کو کافی ریلیف مل گیا ہے۔

وقاص شاہ نے مزید کہا: ’قبائلی اضلاع میں انضمام کے خلاف مہم چل رہی ہے تو چترال اور دیر کے عوام ناراض ہیں کہ انہیں سوات موٹر وے ایکسپریس فیز ٹو میں کیوں نظرانداز کیا گیا جبکہ سوات کے لوگ ناراض ہیں کہ ان کی زمینیں اس منصوبے کی نظر ہوگئی ہیں۔‘

وقاص شاہ نے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ’سوات وزیراعلیٰ محمود خان کا اپنا علاقہ ہے، وہاں اب اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی ہے۔ دیر ماضی سے ہی جماعت اسلامی کا مضبوط گڑھ رہا ہے لیکن اب وہاں سے دو ارکان صوبائی اسمبلی پیپلز پارٹی کے بھی ہیں۔ شانگلہ میں امیر مقام کا مضبوط ووٹ بینک ہے جبکہ پی ٹی آئی کا وہاں سے صرف ایک ایم پی اے ہے اور جہاں تک ہزارہ ہندکو ریجن کی بات ہے تو وہ کیپٹن صفدر کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ہی رہا ہے۔‘

بقول وقاص شاہ: دراصل پی ٹی آئی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج مہنگائی ہے، جس سے عام لوگوں کی طرح تحریک انصاف کے اپنے کارکن بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

’ان کے کارکن جلسوں میں نہیں جاسکتے اور ان ہی حالات کے سبب وہ اپنے جماعت سے ناخوش بھی نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑی سیٹ میئر پشاور کی ہے جو جمعیت علمائے اسلام لے گیا، جب کہ چیئرمین تحصیل کی سیٹ بھی منقسم ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرا مرحلہ تحریک انصاف کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔‘

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے بعض پولنگ سٹیشنوں میں جہاں پہلے مرحلے کے انتخابات میں پولنگ کا عمل روک دیا گیا تھا وہاں 13 فروری کو دوبارہ انتخابات کروائے جارہے ہیں، تاہم اس میں پشاور کے پولنگ سٹیشن شامل نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست