نمرتا چندانی کی موت کے ذمہ دار اس کے دوست ہیں: انکوائری رپورٹ

لاڑکانہ کے چانڈنکا میڈیکل کالج کی طالبہ نمرتا چندانی کی موت کی تحقیقات کرنے والے انکوائری افسر نے نمرتا کی موت کا ذمہ دار اسی کے دوستوں کو قرار دے کر ان سے تفتیش کرنے کی سفارش کی ہے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق نمرتا کماری خودکشی سے پہلےشدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں (نمرتا کماری ٹوئٹر اکاؤنٹ)

صوبہ سندھ میں لاڑکانہ کے ایک میڈیکل کالج کی طالبہ نمرتا چندانی کی (جو نمرتا کماری کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں) خودکشی کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں انکوائری افسر سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو نے موت کا ذمہ دار اسی کے دوستوں کو ٹھہرایا ہے۔

نمرتا چندانی (جو نمرتا کماری کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں) کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں انکوائری افسر سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو نے نمرتا کی موت کا ذمہ دار اسی کے دوستوں کو ٹھہرایا ہے اور مہران ابڑو، علی شان میمن نامی دوستوں سمیت نمرتا کی روم میٹ شمونا کی جانب سے عدالت سے حقائق چھپانے پر تینوں سے قانونی سطح پر تفتیش کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

جبکہ نمرتا کا پوسٹ مارٹم کرنے والی میڈیکل لیگل ڈاکٹر امریتا کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

نمرتا کماری آصفہ ڈینٹل کالج کے فائنل ایئر کی طالبہ تھیں اور انہوں نے 16 ستمبر 2019 کو ہاسٹل کے کمرے میں خودکشی کر لی تھی۔ ان کی موت کی وجوہات پر خاصی بحث چلی تھی کہ آیا وہ خودکشی تھی یا انہیں قتل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سندھ کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہوئی تھی، جو 20 نومبر 2019 کو مکمل ہو گئی تھی مگر اس رپورٹ کو سرکاری طور پر کبھی جاری نہیں کیا گیا۔  

مگر اب یہ رپورٹ سامنے آ گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نمرتا کے بھائی نے بھی عدالت سے مبینہ طور پر حقائق چھپائے۔

انکوائری جج نے نمرتا کے وجود سے ملنے والے نامعلوم شخص کے ڈی این اے پر مزید ڈی این اے سیمپلز لینے کی سفارش نہیں کی تاہم نمرتا کے ایک تیسرے سابق دوست انجینیئرنگ کے ایک طالب علم کا بھی ذکر کیا ہے۔

جوڈیشل انکوائری افسر سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو نے 45 افراد کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’نمرتا چندانی کی ہلاکت جنسی زیادتی کے بعد قتل سے نہیں ہوئی بلکہ نمرتا چندانی نے خودکشی کی۔ ان کا یہ عمل غفلت، غیر محتاط، غیر مہذب تعلقات کا نتیجہ تھا جو معاشرتی اخلاقیات کے خلاف تھا۔‘

ڈی این اے رپورٹ اور حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا کہ جنسی عمل نمرتا کی باہمی رضامندی سے ہوا اور نمرتا کے مہران ابڑو سے ایک حد سے زیادہ قریبی تعلقات تھے۔ وہ مہران ابڑو سے شادی کرنا چاہتی تھی اور ان کے گھر پر بھی رہتی تھیں۔ لیکن مہران ابڑو شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اور انہوں نے دونوں کا رشتہ چھپانا چاہا لیکن نمرتا کی فیملی کو ان کی نجی زندگی کے متعلق علم تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’مہران ابڑو ایک خود غرض شخص ثابت ہوا جس نے نمرتا کا فائدہ بھی اٹھایا یہاں تک کے وہ نمرتا کے اے ٹی ایم کارڈ بھی استعمال کرتا تھا۔ مہران ابڑو سے نمرتا کے تعلقات اس کے لیے معاشرتی بدنامی کا باعث بنے۔‘

موت کی آخری رات نمرتا کی مہران ابڑو سے تین گھنٹوں تک میسجز پر بات ہوئی اور ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ نمرتا اس وقت کافی ناامید اور دل شکستہ تھی۔

انکوائری جج کا کہنا تھا کہ مہران ابڑو اور علی شان میمن اگر نمرتا کو نظر انداز نہ کرتے تو وہ خودکشی نہ کرتیں۔

’مہران ابڑو نمرتا کے ڈپریشن اور اینگزائٹی سے بخوبی واقف تھے، اور آخری رات نمرتا سے رابطے میں بھی تھے، جبکہ میسجز ریکارڈ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نمرتا شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی لیکن مہران ابڑو نے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں اٹھائے۔‘

’نمرتا مہران ابڑو سے شادی ضرور کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کو تیار نہیں تھی اور یہ بات مہران ابڑو بھی جانتے تھے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’مہران ابڑو کا بیان انتہائی اہم اور فیصلہ کن تھا۔‘

مہران ابڑو نے عدالت کو بیان دیا کہ ’نمرتا آخری رات اس لیے پریشان تھی کہ اس کے بھائی کو کچھ پتہ چل گیا تھا اور وہ کافی غصے میں تھا۔‘

مہران ابڑو نے عدالت کو بیان دیا کہ ’نمرتا کے ساتھ اس کی اور علی شان کی مشترکہ دوست تھی لیکن مہران ابڑو کے ساتھ تعلقات سے قبل وہ ایک انجینیئرنگ کے ایک طالب علم کی دوست تھیں لیکن مہران سے تعلقات کے بعد وہ ان سے قطع تعلق ہو گئی تھیں۔‘

مہران ابڑو نے کہا کہ ’نمرتا اپنے والد اور بھائی کے طنزیہ رویوں اور پابندیوں سے تنگ تھی اور پہلے بھی خودکشی کی کوشش کر چکی تھی۔‘

انکوائری جج کا کہنا ہے کہ ’نمرتا کی موت سہ پہر دو بجے کے قریب ہوئی جبکہ مہران ابڑو کے دوست علی شان نے صبح 10:01 پر مہران ابڑو کو میسج کیا کہ She is no more۔ علی شان میمن سے تفتیش ہونی چاہیے کہ دو بجے دوپہر ہونے والی موت کا انہیں صبح 10 بجے کیسے پتہ چلا؟‘

مہران ابڑو نے عدالت کو بیان دیا کہ وہ 16 ستمبر کی رات 12 بجے نمرتا سے چیٹ کے بعد موبائل بیٹری ختم ہونے پر سو گئے اور صبح 10 بجے جاگے، جبکہ ان کا واٹس ایپ چیٹ ریکارڈ ڈیٹا ثابت کرتا ہے کہ وہ اسی صبح آٹھ بجے کے قریب اپنے دوست علی شان سے رابطے میں تھے۔

نمرتا کی روم میٹ شمونہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ نمرتا کی نجی زندگی سے واقف نہیں تھیں جبکہ وہ مہران ابڑو اور علی شان میمن دونوں سے نمرتا کے متعلق رابطے میں تھیں۔

مہران ابڑو، علی شان میمن اور نمرتا کی روم میٹ شمونا نے عدالت سے حقائق چھپائے جو کہ شواہد سے ثابت ہوئے۔ انکوائری جج نے تینوں سے مزید تفتیش کرنے کی سفارش کی جبکہ مہران ابڑو اور علی شان میمن کے خلاف انضباطی کارروائی کی بھی سفارش کی۔

رپورٹ کے مطابق نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال نے بھی عدالت سے حقائق چھپائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نمرتا کے ہاسٹل کی نجی زندگی کے متعلق نہیں جانتے لیکن نمرتا اور مہران ابڑو کے میسجز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک جانتے تھے۔

انکوائری جج نے نمرتا کا پوسٹ مارٹم کرنے والی میڈیکو لیگل ڈاکٹر امرتا کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کی۔

انکوائری افسر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر امرتا نے حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نہ صرف اپنے اختیارات سے تجاوز کیا بلکہ رپورٹ میں نمرتا کے جنسی عمل اور موت کے متعلق مشتبہ اور حقائق سے ہٹ کر رپورٹ دی۔

’جس سے معاشرے میں یہ تاثر گیا کہ نمرتا کا جنسی زیادتی کے بعد قتل ہوا، جو کہ حقیقت نہیں ہے اور اس رپورٹ کے باعث نمرتا کے والدین کی معاشرے میں بدنامی ہوئی۔‘

انکوائری جج نے کہا کہ اگر نمرتا کے والدین چاہیں تو وہ ڈاکٹر امرتا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔

نمرتا کماری جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں وائس چانسلر جامع بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا جبکہ اس سارے معاملے میں گذشتہ دو سالوں سے انہیں اپنے خلاف شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سندھ حکومت نے بھی انہیں ڈیڑھ ماہ کے لیے جبری رخصت پر بھیج دیا ہے اور ادارے میں بدانتظامی اور متعلقہ واقعات کی وجوہات جاننے کے لیے ڈائیو میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے وائس چانسلر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی ہے جو کہ 45 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

وائس چانسلر جامع بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر کے خلاف ’وی سی قاتل‘ کے نعرے دو سالوں سے لگ رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف نفرت آمیز پوسٹس شیئر کی جاتی ہیں لیکن وہ خاموش ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ’میرے بات کرنے پر پابندی عائد ہے تاہم وہ اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتی ہیں۔‘

واقعے کا پس منظر

آصفہ ڈینٹل کالج کے فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی 16 ستمبر کی سہ پہر دو بجے کے قریب چانڈکا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں تشویشناک حالت میں پائی گئیں۔

نمرتا چندانی کی روم میٹس نے جب کالج سے واپس آ کر ہاسٹل کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو کمرہ اندر سے بند تھا جس پر انہوں نے اندر جھانک کر دیکھا تو نمرتا چندانی کو بیڈ پر گرے ہوئے پایا۔ جس کے بعد ہاسٹل میں شور مچ گیا اور چوکیدار سمیت ہاسٹل کے دیگر کمروں میں موجود طالبات نمرتا کے کمرے کے باہر اکٹھی ہو گئیں اور دروازہ توڑ کر کمرے میں داخل ہوئیں۔

نمرتا کی اس وقت حالت دیکھ کر انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں نمرتا کی موت واقع ہونے کی تصدیق ہوئی۔ تب تک ہسپتال میں جامعہ بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر سمیت دیگر انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پہنچ گئے اور انتظامیہ کی جانب سے نمرتا کے والدین کو بھی واقعے کی اطلاع دی گئی۔

نمرتا چندانی کا میڈیکل کی طالبہ اور تعلق اقلیتی برادری سے ہونے کے باعث خبر نے نیوز چینلوں کی سرخیوں میں جگہ بنا لی۔

ان کے پوسٹ مارٹم کے لیے سب کو انتظار تھا کہ ان کے والدین کراچی سے لاڑکانہ پہنچیں اور اس کے بعد ضابطے کی کارروائی کا آغاز ہو۔ نمرتا کے ورثا کے پہنچنے کے بعد رات دیر گئے نمرتا کا ابتدائی پوسٹ مارٹم ہوا جس میں ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم پر کسی بھی قسم کے تشدد اور زور زبردستی کے شواہد نہیں ملے۔

اسی دوران پولیس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور نمرتا کے دو کلاس فیلوز مہران ابڑو اور علی شان میمن کو حراست میں لے کر نمرتا سمیت تینوں طالب علموں کے موبائل فونز فارنزک کے لیے بھجوا دیے۔ جائے وقوعہ سے فنگر پرنٹس بھی اکٹھے کیے گئے جبکہ نمرتا کے جسم کے اجزا سمیت سواب سیمپلز اور کپڑے لیاقت یونیورسٹی جامشورو لیبارٹری سمیت مختلف متعلقہ لیبارٹریوں میں بھیجے گئے۔

پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کروانے کی استدعا کی تاکہ تحقیقات کا دائرہ بڑھایا جائے لیکن نمرتا کے والدین نے پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا پر بیان دیا کہ نمرتا ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی انہیں خودکشی کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نمرتا کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔ جس کے بعد ورثا کے مطالبے پر محکمہ داخلہ حکومت سندھ نے جوڈیشل انکوائری کے احکامات دیے اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اس وقت کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا اور 30 روز میں رپورٹ طلب کی گئی۔

سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ اقبال حسین میتلو نے دو سے تین ماہ کے عرصے میں اپنی انکوائری مکمل کی اور رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ اور محکمہ داخلہ سندھ کو بھجوا دی۔

انکوائری رپورٹ جاری ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال اور والد سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد یہ رپورٹ کبھی منظرعام پر نہیں آئی اور ساتھ ہی نمرتا چندانی کے والدین بھی منظرعام سے غائب ہو گئے۔ اس پر قیاس آرائیوں نے جنم لیا اور سیاسی و سماجی احتجاجوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ وائس چانسلر جامعہ بےنظیر بھٹو کو بنایا گیا اور نعرے لگائے گئے ’وی سی قاتل، وی سی قاتل۔‘

بالآخر کچھ عرصے بعد سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تو ختم ہو گئے لیکن اس واقعے نے معاشرے پر اور متعلقہ افراد کے ذہنوں  پر گہرے نشانات چھوڑ دیے۔

ابھی اس واقعے کے اثرات ہٹے نہ تھے کہ چانڈکا میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے فورتھ ائیر کی طالبہ سیدہ نوشین کاظمی کی لاش ہاسٹل نمبر دو کے کمرہ نمبر 47 میں پائی گئی۔

اس بار کالج انتظامیہ نے کسی کو کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور فوری طور پر نوشین کے والد سید ہدایت شاہ اور پولیس کو اطلاع کر دی۔

نوشین کے والد نے خود جائے وقوعہ پر پہنچنے تک بیٹی کی لاش کو جائے واردات سے ہٹانے سے منع کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سید ہدایت شاہ کے چانڈکا میڈیکل کالج پہنچنے پر انہیں نوشین کے ہاسٹل روم میں لے جایا گیا اور پھر ان کی اجازت سے نوشین کاظمی کی لاش کو تقریباً پانچ سے چھ گھنٹوں بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم کے لیے لاش سپتال منتقل کر دی گئی۔

نوشین کاظمی کے کمرے سے پولیس کو نوشین کا موبائل، لاش کے قریب سے ایک سوسائیڈل نوٹ اور کمرے میں قناعت سے بنا ایک الگ تھلگ حجرہ ملا جس میں نوشین کی ڈائری سے دو نوٹس بھی ملے جن میں نوشین نے لکھا تھا کہ وہ خودکشی کر رہی ہیں۔

پولیس کی جانب سے نوشین کے دونوں سوسائیڈ نوٹس اور موبائل فون کو فارنزک کے لیے بھجوا دیا گیا جبکہ نوشین کے سواب سیمپلز اور کپڑے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیاقت یونیورسٹی جامشورو لیبارٹری بھجوائے گئے۔

نوشین کاظمی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی کسی طرح کے کوئی تشدد یا زور زبردستی کے شواہد نہیں ملے۔ نوشین کے ورثا نے بھی انصاف کا مطالبہ کیا تاہم وائس چانسلر جامع بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر انیلا عطاء الرحمان کے خلاف ایک بار پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

پولیس نے نوشین کاظمی کے موبائل اور سوسائیڈ نوٹ کی فارنزک آنے کے بعد واقعے کو بظاہر خودکشی قرار دیا جبکہ سب کو نوشین کاظمی کے ڈی این اے رپورٹ کا انتظار تھا۔

نوشین کے والد سید ہدایت اللہ شاہ کا کہنا ہے کہ ایک وقت کے لیے تو وہ اس درد ناک واقعے کو خدا کی مرضی جان کر زندگی میں آگے بڑھنے کا سوچ چکے تھے، لیکن پھر لیاقت یونیورسٹی جامشورو کی فارنزک لیبارٹری نے ایک ایسی رپورٹ جاری کی جس میں نہ صرف نوشین بلکہ دو سال قبل نمرتا چندانی کے واقعے کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا اور یہ خبریں دوبارہ میڈیا پر آنے لگیں۔

لیاقت یونیورسٹی جامشورو سے جاری فارنزک لیبارٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نوشین کاظمی کے سواب سیمپلز اور کپڑوں سے ایک مرد کا ڈی این اے ملا ہے جس کے نمونے 2019 میں نمرتا چندانی کے جسم اور کپڑوں سے ملنے والے نمونوں سے ’50 فیصد‘ تک ملتے ہیں۔

لیبارٹری کی ڈی این اے رپورٹ میں تجویز پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ چانڈکا گرلز ہاسٹل کے مرد سٹاف کے ڈی این اے کے لیے نمونے جامشورو لیبارٹری بھجوائے جائیں۔

اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد وائس چانسلر بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے خلاف ایک بار پھر احتجاج شروع ہوئے لیکن سندھ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر نہ تو کوئی بیان سامنے آیا اور نہ ہی نمرتا چندانی کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ جاری کی جا رہی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق