سیندک پروجیکٹ میں توسیع کا معاہدہ آئین اور قانون سے متصادم؟

وفاقی حکومت نے سیندک منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے میں 15 سال کی توسیع کردی ہے، جس پر تنقید کرتے ہوئے صوبائی سیاسی جماعتوں نےاسے آئین اورقانون سمیت عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

19 جون 1998 کی اس تصویر میں صوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی کے اس پہاڑ کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں پاکستان نے پانچ جوہری تجربات کیے تھے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع سیندک منصوبے پر کام کے لیے پہلے سے کام کرنے والی چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے میں 15 سال کی توسیع کردی ہے، جسے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے آئین و قانون سے متصادم قرار دے کر اس کی مخالفت کی ہے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے چند روز قبل ٹوئٹر پر سیندک مائن کے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کی مدت میں توسیع کی منظوری کی خبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’نئے معاہدے میں حکومت پاکستان کا منافع میں حصہ بڑھا دیا گیا ہے۔ بلوچستان حکومت کی رائلٹی اور کرائے میں بھی اضافے اور مزید سرمایہ کاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔‘

حماد اظہر نے مزید کہا: ’یہ معاہدہ بلوچستان حکومت کی مشاورت اور رضامندی کے ساتھ ہوا ہے، جس میں حکومت پاکستان کی مینجمنٹ اور نگرانی میں سکوپ کو بھی بڑھایا گیا ہے۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا: ’نئے معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کے شیئرز میں منافعے کی شرح 50 فیصد سے بڑھا کر 53:47 کردی گئی ہے جبکہ بلوچستان کے سیل ریونیو کو پانچ فیصد سے بڑھا کر 5.6 فیصد کردیا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے خالص منافعے کو پانچ فیصد سے بڑھا کا چھ اعشاریہ پانچ فیصد کردیا گیا ہے، جبکہ سالانہ کرائے کو بھی 40 فیصد بڑھادیا گیا ہے۔‘

تاہم بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے اس معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے ٹویٹ کی: ’سیندک معاہدے کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کی طرف سے توسیع کا معاہدہ آئین اور قانون کے علاوہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سیندک کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کی قائم کمیٹی کو اس سلسلے میں مکمل نظر انداز کیا گیا۔‘

ادھر نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری جان محمد بلیدی نے بھی سیندک کے معاہدے کو ’بلوچستان کے معاملات میں مداخلت اور اٹھارویں ترمیم کی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔ 

جان محمد بلیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ اقدام کو ماورائے آئین اقدام کہہ لیں بھی تو بے جا نہ ہوگا۔‘

انہوں نے کہا: ’سیندک معاہدے کے حوالے سے کوئی آئینی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ وفاق نے صوبے کے معاملے میں مداخلت کرکے معاہدہ کیا ہے۔‘

جان بلیدی کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے ریکوڈک پر بھی سخت موقف اپنایا ہے اور ہم وفاق کی سطح پر ہونے والے معاہدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔‘

انہوں نے کہا: ’جب ہمارے دور میں 2013 میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی تو یہ معاہدہ ختم ہوچکا تھا۔ وفاق نے اسی طرح توسیع کے لیے کہا لیکن ہماری حکومت نے اس پر شدید احتجاج کیا، جس کی وجہ سے یہ معاہدہ نہیں ہوسکا۔ پھر نواب ثنا اللہ زہری کے دور میں معاہدے میں توسیع کی گئی تھی۔ 

جان محمد نے کہا: ’چینی کمپنی مائننگ کے بعد بلاک بنا کر چین بھیج دیتی ہے اور وہاں اس میں سے کاپر اور سونا الگ کیا جاتا ہے۔‘

’ہم نے اس حوالے سے تنظیم کا اجلاس طلب کیا ہے، جس میں سیندک معاہدے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اس مسئلے کو ہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سطح پر اٹھائیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سیندک کی طرح سوئی کا معاہدہ بھی ہمارے دور میں کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہماری حکومت نے وفاق کو ایسا کرنے نہیں دیا۔‘

 سیندک کے معاہدے کو ماہرین قانون بھی آئین اور اٹھارویں آئینی ترمیم سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ 

ممتاز قانون دان امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کے آئین کی شق نمبر 172 میں لکھا ہے کہ جو بھی وسائل زمین کے اندر ہیں وہ وفاق کے ہیں اور جو زمین کے اوپر ہیں وہ صوبوں کی ملکیت ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا: ’اس کے علاوہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی وفاقی حکومت یہ معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا ہے، جس کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد یہ صوبے کا اختیار ہے کہ وہ معاہدے کرے اور پرانے معاہدوں کی توسیع کرے۔‘ 

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ’اس مسئلے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں اگر کوئی سامنے آئے تو میں یہ کیس بلامعاوضہ لڑنے کو تیار ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس معاملے میں صوبائی اسمبلی اپنا کردار ادا کرے اور مذمتی قرار داد منظور کرے۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کریں اور صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کریں تاکہ وہ اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کے وسائل تو شیر مادر کی طرح ہیں، جن کو لوٹا جا رہا ہے۔‘

ادھر سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان محفوظ علی خان بھی کہتے ہیں کہ ’منرلز صوبے کے اختیار میں ہیں، اس لیے توسیع کا معاہدہ ایم سی سی اور حکومت بلوچستان کے درمیان ہونا چاہیے تھا۔‘ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے پہلے ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں 2012 میں معاہدے میں توسیع کی گئی تھی۔ اس بار رائلٹی میں چھ اعشاریہ پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ وفاقی شیئر میں 52 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ 

محفوظ علی خان نے بتایا کہ ’بلوچستان حکومت کو رائلٹی عالمی منڈی میں کاپر کے ریٹ کے حساب سے ملتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سیندک میں جو مشینری لگائی گئی ہے۔ وہ بلاک بناتی ہے۔ اس لیے جب تک اس کو دوسرے مراحل سے نہ گزارا جائے اس میں موجود معدنیات کی مقدار کا پتہ نہیں چلتا۔‘

اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت کا موقف لینے کے لیے صوبائی وزیر ظہور بلیدی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں پیغام بھی بھیجا لیکن انہوں نے مسیج دیکھ کر بھی کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔ 

ظہور بلیدی سے فون پر بھی موقف لینے کی کوشش کی گئی اور ایک بار رابطہ منقطع ہونے کے بعد دوبارہ رابطے کی کوشش کی گئی، تاہم انہوں نے فون کاٹ دیا۔ 

 سیندک معاہدہ کیسے ہوا؟

معاہدے کے حوالے سے محکمہ خزانہ کی جانب سے نو فروری 2022 کو جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی صدارت میں ہوا، جس میں وفاقی محکمہ توانائی اور پیٹرولیم کی جانب سے ایک سمری پیش کی گئی۔ جس میں سیندک میٹلز لمیٹڈ کے سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ کے لیز کی مدت میں 15 سال کی توسیع کی تجویز دی گئی۔ 

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سمری پر غور کرنے کے بعد لیز کی توسیع کی منظوری دے دی۔ اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی جاری کی گئی کہ پروجیکٹ کے مالی امور کا سالانہ ماہرین سے تجزیہ کروایا جائے۔ 

 سیندک کہاں واقع ہے؟

بلوچستان کے ایرانی سرحد سے متصل ضلع چاغی میں سیندک کے مقام پر سونے اور چاندی کے ذخائر 1970 میں دریافت ہوئے، جس کو چین کی انجینیئرنگ فرم کے توسط سےدریافت کیا گیا۔

 سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ کے لیے سیندک میٹلز لمیٹڈ کمپنی بنائی گئی، جو مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ جسے 1995 میں 13 اعشاریہ پانچ ارب روپے کی لاگت سے قائم کیا گیا۔ 

پاکستان اور چین کے درمیان ابتدائی طور پر 35 کروڑ ڈالر کا معاہدہ ہوا، جس میں میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ کو دس سالہ لیز پر دیا گیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان