کنڈل شاہی:’اردو میں بات کریں، یہ کون سی زبان بول رہے ہیں‘

وادی نیلم کی منفرد زبان جو کسی زمانے میں قریشی قبیلے کی مادری زبان تھی لیکن آج اسے صرف 40 سے 50 لوگ ہی بولتے اور سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے علاقے کنڈل شاہی میں بولی جانے والی زبان ’کنڈل شاہی‘ مسلسل معدومی کا شکار ہو رہی ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق اب چند گھرانوں کے صرف 40 یا 50 لوگ ہی یہ زبان مکمل طور پر بولتے اور سمجھتے ہیں۔

چند دہائیاں قبل تک یہ زبان کنڈل شاہی میں آباد قریشی خاندان کی مادری زبان تھی اور ہر فرد یہی زبان بولتا تھا۔

تاہم اب یہ زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگوں میں بتدریج کمی آ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں یہ زبان مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

مظفرآباد سے لگ بھگ 70 کلومیٹر شمال میں آباد کنڈل شاہی گاؤں میں بولی جانے والی اس زبان کو مقامی سطح پر ’بولی‘ اور ’راہوڑی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تاہم دستاویزات میں اس زبان کو کنڈل شاہی کا ہی نام دیا گیا ہے۔

ماہرین لسانیات کے مطابق اس زبان کی مماثلت کافی حد تک گلگت بلتستان میں شینا زبان سے ہے، تاہم یہ کسی زبان کی ذیلی شاخ یا لہجہ نہیں بلکہ ایک الگ اور مکمل زبان ہے۔

کنڈل شاہی زبان کی تاریخ اور ارتقا

وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمٰن کافی عرصے سے اس زبان پر تحقیق کے ساتھ ساتھ اس کے بچاؤ پر بھی کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ الگ زبان ہے، کسی زبان کا ڈائلیکٹ (لہجہ) یا بولی نہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر خواجہ عبدالرحمٰن نے بتایا: ’اس زبان کا تعلق انڈو آریان فیملی، جس کو ہم ہند آریائی نسل کی زبانیں کہتے ہیں، سے ہے۔ انڈو آریان فیملی بذات خود انڈو یورپین فیملی سے ملتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر زبانیں انڈو آریان فیملی سے ہی ہیں۔ اس کی پھر مزید شاخیں ہیں۔‘

ڈاکٹر رحمٰن کے بقول: ’ایک سینٹرل شاخ ہے، ایک ویسٹرن شاخ ہے۔ ویسٹرن شاخ شمال مغرب میں بولی جاتی ہے۔‘

’اس شاخ کے مزید گروپ ہیں۔ کنڈل شاہی زبان کا تعلق بنیادی طور پر شینا گروپ سے ہے۔‘

اس زبان کی کوئی باقاعدہ تاریخ تحریری طور پر دستیاب نہیں البتہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن کی تحقیق کے مطابق یہ زبان کنڈل شاہی گاؤں کے علاوہ دیگر کسی جگہ نہیں بولی جا رہی۔

ان کے بقول اب اس زبان پر اردگرد کی علاقائی زبانوں خاص طور پر کشمیری، ہندکو اور گوجری وغیرہ کا بھی گہرا اثر ہے۔

قریشی خاندان کہاں سے آیا اور کنڈل شاہی میں کتنے عرصے سے آباد ہے؟ اس بارے میں کوئی دستاویزی شواہد موجود نہیں البتہ اس خاندان کے عمر رسیدہ بزرگوں کو معلوم سینہ بہ سینہ تاریخ کے مطابق یہ خاندان تین صدیوں سے زائد عرصے سے یہاں آباد ہے۔

یہ خاندان یہاں آنے سے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سوپور کے گاؤں تجر میں آباد تھا۔

اس خاندان کے کچھ لوگ گلگت بلتستان کے علاقے چلاس اور سکردو میں بھی آباد ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ کنڈل سے چلاس منتقل ہوئے یا پھر کنڈل شاہی میں آباد قبیلہ چلاس سے یہاں منتقل ہوا۔

دونوں قبائل کی زبانوں میں بہت فرق ہے اور چلاس میں آباد قبیلہ مکمل طور پر شینا زبان بولتا ہے جس کے محض چند الفاظ کنڈل شاہی زبان کے ساتھ مشترک ہیں۔

اس زبان کی معدومی کی وجوہات

غلام رسول قریشی کنڈل شاہی قصبے میں ایک نجی تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں۔ 55 سالہ غلام رسول پاکستانی فوج میں خطیب رہ چکے ہیں۔

ان کے والدین یہ زبان بولتے تھے، وہ خود بھی کافی حد تک اسے بولتے اور سمجھتے ہیں، تاہم ان کے بچوں میں سے کوئی بھی اسے نہیں بول سکتا۔

وہ کہتے ہیں: ’جس زمانے میں، میں نے آنکھ کھولی تو کنڈل شاہی کے علاقے میں ہر گھر میں دو چار آدمی بولنے والے تھے۔ پورا ایک ماحول تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بولی بولنے والے لوگ اٹھ گئے۔ اب بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔ اب زیادہ لوگ اردو یا ہندکو بولتے ہیں۔‘

غلام رسول کے بقول نوجوان یہ زبان بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دوسری زبانیں بولنے والے لوگ بھی اس زبان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ’اس لیے بچے کنڈل شاہی زبان کی بجائے ہندکو اور اردو بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

’وہ کہتے ہیں ہم سے ہندکو یا اردو میں بات کریں، یہ کون سی زبان بول رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اثاثہ تھا کنڈل شاہی کا، جو بدقسمتی سے ضائع ہو گیا۔‘

غلام رسول کے بقول اس وقت کنڈل شاہی میں زیادہ سے زیادہ 40 یا 50 لوگ ہوں گئے جو یہ زبان بولنا جانتے ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر کی عمریں 50 سال سے زائد ہیں۔

ان کے بقول اس زبان کی معدومی کی ایک وجہ اس خاندان کے نوجوان کی دوسرے خاندانوں میں شادیاں بھی ہے۔

’جو لڑکیاں شادیاں کرکے دوسرے خاندانوں میں چلی گئیں انہوں نے یہ زبان بولنا چھوڑ دی۔ جو باہر سے شادیاں کرکے آئیں، انہیں یہ زبان سمجھ نہیں آتی تھی، اس لیے پورے گھر نے ہندکو یا کوئی دوسری زبان بولنا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ زبان اگلی نسل تک منتقل نہ ہو سکی۔‘

کنڈل شاہی زبان کی موجودہ صورت حال

75 سالہ عبدالرشید اور ان کی اہلیہ بالا جان آپس میں روزمرہ کی گفتگو اسی زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے کل سات بچے ہیں، جن کی عمریں 20 سے 50 سال کے درمیان ہیں۔

اگرچہ اس خاندان میں زیادہ تر گفتگو کنڈل شاہی زبان میں ہوتی رہی ہے، تاہم عبدالرشید کے تین چھوٹے بچے یہ زبان نہیں بول سکتے اور پوتوں یا نواسوں میں تو کسی کو بھی سمجھ نہیں آتی۔

بالا جان بتاتی ہیں: ’میرے سات بچے ہیں۔ ان میں سے چار یہ زبان بولتے ہیں۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں یہ زبان بولتی ہیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی کنڈل شاہی بولی نہیں بول سکتے۔ چھوٹے بچے جب باتیں کرنے لگے تو ہمارا دھیان ہی اس طرف نہیں گیا کہ ان کو سکھائیں۔ ایک وقت آئے گا یہ بولی کام آئے گی۔‘

عبدالرشید بتاتے ہیں کہ ان کا ایک بیٹا اور بہو جو ان کے ساتھ رہتے ہیں، گھر میں ساری گفتگو اسی زبان میں کرتے ہیں مگر چھوٹے بچوں کو یہ زبان سمجھ نہیں آتی۔

’ہم کوئی بات اپنی زبان میں پوچھیں تو وہ ہندکو میں جواب دیتے ہیں۔ چھوٹے بچے نہیں بولتے۔ ایک وقت آئے گا افسوس کریں گے۔ ہماری برادری کو چاہیے تھا کہ اپنی بولی میں گفتگو کریں۔‘

کنڈل شاہی زبان کے تحفظ کی محدود کوششیں

مقامی لوگوں کے مطابق 40 سال سے کم عمر کے جو لوگ یہ زبان مکمل طور پر بول اور سمجھ سکتے ہیں، ان کی تعداد 10 سے 15 کے درمیان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں سے ایک سجاد قریشی بھی ہیں جو مقامی سرکاری سکول میں معلم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب چند نوجوان اس حوالے سے دلچسپی لے رہے ہیں لیکن اکثر اسے بولنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔

بقول سجاد قریشی: ’چند ایک نوجوان اس معاملے پ بات کرتے ہیں اور اس زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم دوست، رشتہ دار جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو اس پر بات چیت کرتے ہیں کہ یہ زبان ختم نہیں ہونی چاہیے یہ ہمارا اثاثہ ہے۔‘

ڈاکٹر عبدالرحمٰن بھی چند مقامی نوجوانوں کے ساتھ مل کر اس زبان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم مشکل یہ ہے کہ ان میں سے بھی زیادہ تر یہ زبان بولنا نہیں جانتے۔

وہ کہتے ہیں: ’بنیادی طور پر چونکہ یہ زبان کہیں لکھی ہوئی نہیں۔ اس کا کوئی الگ رسم الخط نہیں۔ ہم اسے کسی بھی رسم خط میں ڈھال کر لکھ سکتے ہیں۔‘

’جہاں تک اس کے لٹریچر یا شاعری کا تعلق ہے تو ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں ملی، البتہ کچھ لوک کہانیاں موجود ہیں، کچھ ضرب المثال ہیں اور محاورے ہیں جو سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو دستاویزی شکل دی ہے تاکہ انہیں محفوظ کیا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا