ایک نئی تحقیق کے مطابق اس صدی کے آخر تک دنیا کی 1500 سے زائد خطرے سے دوچار زبانیں معدوم ہو سکتی ہیں۔
تحقیق میں ان زبانوں کو بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مقامی سطح پر دستاویزات اور دوزبانی تعلیمی پروگراموں میں فوری سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعے کو ’نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلا کہ متعدد عوامل خطرے کا سامنا کرنے والی زبانوں کو مزید خطرے میں ڈالتے ہیں، جن میں سڑکوں کی تعمیر کا کردار زیادہ ہے، جو آبادی کی نقل و حرکت میں حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
آسٹریلوی نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کے محققین کے مطابق اگرچہ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 6500 سے 7000 متنوع زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے نصف سے زیادہ کو بہت خطرہ ہے۔
مطالعے کے شریک مصنف فیلیسٹی میکینز نے ایک بیان میں کہا کہ اب بھی بولی جانے والی تقریباً 7000 زبانوں میں سے تقریباً نصف کے مکمل طور پر معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔
مداخلت کے بغیر زبان کا نقصان 40 سال کے اندر تین گنا بڑھ سکتا ہے، جو اس صدی کے باقی حصوں میں ماہانہ کھوئی ہوئی زبانوں کے مساوی ہے۔
سائنس دانوں نے 6511 بولی جانے والی زبانوں سے وابستہ 51 متغیرات کا تجزیہ کیا ہے، جیسا کہ دستاویزات، قانونی شناخت، تعلیمی پالیسی، سماجی اقتصادی اشاریے اور ماحولیاتی خصوصیات۔
’جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے یا ’سو رہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ ہم ان زبانوں کے لیے کہتے ہیں جو اب نہیں بولی جاتیں تو ہم اپنے انسانی ثقافتی تنوع کو کھو دیتے ہیں۔‘
اے این یو سے تعلق رکھنے والے پروفیسر لنڈل بروہم نے کہا کہ ہر زبان اپنے اپنے انداز میں شاندار ہے۔
ڈاکٹر بروہم نے مزید کہا کہ جن زبانوں کی رواں صدی میں معدومیت کی پیشگوئی کی گئی ان میں بہت ساری ایسی ہیں جن کے اب بھی روانی سے بولنے والے موجود ہیں۔ لہٰذا مقامی زبانوں کو زندہ کرنے اور انہیں آنے والی نسلوں کے لیے مضبوط رکھنے کے لیے کمیونٹیز کی معاونت میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع اب بھی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محققین کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا سمیت کئی مقامات پر وحشیانہ نوآبادیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں دیسی زبانوں کو خاموش کر دیا گیا۔
اس طرح کی پالیسیوں نے مقامی لوگوں کو ان کی زبان بولنے پر سزا دی یا ان کے بچوں کو ہاسٹلز میں رکھا گیا۔
ڈاکٹر میکنز نے مزید کہا کہ ’یہ تجربات تکلیف دہ تھے اور زبان کو آگے بڑھانے کی صلاحیت پر ان کے دیرپا اثرات ثابت ہوئے۔‘
اگرچہ خطرے سے دوچار ان زبانوں میں سے ہر ایک مختلف سماجی، آبادیاتی اور سیاسی دباؤ کا شکار ہے لیکن مطالعے سے پتہ چلا کہ خطرے سے دوچار کرنے والے کچھ مشترکہ عوامل بھی ہیں۔
عام تاثر کے خلاف محققین نے کہا کہ دیگر زبانوں کے ساتھ رابطہ زبان کے نقصان کا محرک نہیں تھا، لیکن سڑکوں کی تعمیر اور زبان کے نقصان کے درمیان تعلق ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر بروہم نے کہا: ’حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ملک میں شہروں اور دیہاتوں کو قصبوں سے جوڑنے والی جتنی سڑکیں ہوں گی، زبانوں کو اتنا ہی زیادہ خطرہ ہوگا۔‘
’ایسا لگتا ہے جیسے سڑکیں، چھوٹی زبانوں کو ’بھاپ کے بگولوں‘ کی طرح اڑانے میں غالب زبانوں کی مدد کر رہی ہیں۔‘
محققین نے ایسا نصاب تیار کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیا، جو دوزبانی تعلیم کی حمایت کرتے ہیں اور دیسی زبان کی مہارت کے ساتھ ساتھ علاقائی طور پر غالب زبانوں کے استعمال کو فروغ دیتے ہیں۔
انہوں نے بہت سے ایسے اہم اسباب پر بھی روشنی ڈالی جو آسٹریلیا کی پہلی اقوام کے لوگوں کی جانب سے بولی جانے والی بہت سی خطرے سے دوچار زبانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اہم ہیں۔
ڈاکٹر میکنز نے کہا کہ آسٹریلیا ان میں سے ایک ہے، جہاں زبان کے نقصان کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ نوآبادیات سے قبل فرسٹ نیشنز کی 250 سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں لیکن اب 40 زبانیں بولی جاتی ہیں اور صرف12 زبانیں بچے سیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا 2022 میں یونیسکو کی دیسی زبانوں کی دہائی میں داخل ہو رہی ہے تو سائنس دانوں نے کہا کہ یہ نئی دریافتیں ایک اہم یاد دہانی ہیں کہ خطرے سے دوچار زبانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
© The Independent