آج انصاف ہو گیا، نور کی روح کو سکون آ گیا ہو گا: والد

چار ماہ اور دس دن تک چلنے والے کیس میں اسلام آباد کی عدالت نے ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حق دار قرار دیتے ہوئے ان کے والدین کو بری کر دیا۔

سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے جمعرات کو ظاہر جعفر کو تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنا دی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا جبکہ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو دس، دس سال کی قید سنائی ہے۔

آج عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جج نے تمام ملزمان کے نام پکارے اور حاضری لگائی۔

سب سے پہلے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت جعفر کا نام پکارا گیا۔ جج عطا ربانی نے کہا کہ جس جس کا نام پکار رہا ہوں وہ آگے آتے جائیں۔

عدالت نے عصمت آدم جی، جمیل، تھراپی ورک کے سی ای او طاہر اور دیگر ملازمین کو بری کر دیا۔

حتمی فیصلے سے قبل جج نے تمام ملزمان کو کمرہ عدالت میں طلب کیا اور چند سوالات کیے۔ اس دوران میڈیا کو باہر نکال دیا گیا اور سی سی ٹی وی فوٹیج چلائی گئی۔

ذرائع کے مطابق ذاکر جعفر سے جج نے مختصر مکالمہ کیا اور پوچھا کہ آپ کو یاد ہے کہ زندگی میں کوئی گناہ کیا ہو جس کی یہ سزا بھگت رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ گذشتہ چھ ماہ سے یہی سوچ رہا ہوں کہ ایسا کیا گناہ کیا تھا۔

جج نے مالی اور چوکیدار کی بھی سرزنش کی اور پوچھا کہ کیوں دروازہ نہیں کھولا اور نور کو باہر کیوں نہیں جانے دیا؟ کیا اپنی کوئی عزیزہ ہوتی تب بھی یہی کرتے؟ ملزمان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس مختصر گفتگو کے بعد ملزمان کو واپس بخشی خانہ لے جایا گیا۔

سزا سنائے جانے کے بعد کمرہ عدالت میں شور بڑھ گیا۔ اسی اثنا میں ہتھکڑیوں میں جکڑے ظاہر جعفر کو جج کے روبرو پیش کیا گیا تو جج نے انہیں اُن کی سزا کی بابت بتایا۔

سزا سننے کے بعد ظاہر پر سکتہ طاری تھا۔ کچھ دیر روسٹرم پہ رہنے کے بعد پولیس انہیں واپس لے گئی جبکہ ان کی والدہ کے ساتھ آئی خواتین نے انہیں گلے لگا کر بری ہونے کی مبارک باد دی۔

فیصلہ آنے پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ پولیس اور پراسیکیوشن نے ذمہ داری پوری کی اور انہیں امید ہے کہ انصاف سے جڑے ادارے عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

فیصلہ آنے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے شوکت مقدم سے گفتگو کی تو وہ کافی مطمئن نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’آج انصاف ہو گیا۔ نور کی روح کو بھی سکون آ گیا ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ قاتل کو انجام تک پہنچایا جائے اور سزائے موت ہو۔ وہ آج پورا ہو گیا ہے وہ عدالت کے انصاف سے مطمئن ہیں۔‘

 

شوکت مقدم کے ساتھ آئی چند رشتہ دار خواتین نے کہا کہ ظاہر جعفر کے والدین کو بھی سزا ہونی چاہیے تھی۔ یہ ادھورا فیصلہ ہے انہیں بری نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

مدعی وکیل شاہ خاور نے انڈپینڈت اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں اور اس میں استغاثہ کی انتھک محنت شامل ہے۔

انہوں نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کہا کہ وہ مدعی شوکت مقدم سے مشاورت کریں گے کہ بری ہونے والے ملزمان بریت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے یا نہیں۔ انہوں نے کہا ٹرائل کورٹ کی سزا کے خلاف ملزمان کے پاس اپیل کا حق ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔

فیصلے کی تفصیلات

تحریری فیصلے کے مطابق نور مقدم کو قتل کرنے کے جرم میں ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔

فیصلے میں پانچ لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے جو نور مقدم کے اہل خانہ کو بطور معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ریپ کے جرم میں ظاہر جعفر کو 25 سال قید بامشقت کی سزا ، دو لاکھ روپے جرمانہ جبکہ اغوا کے جرم میں انہیں 10 سال قید با مشقت کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نور مقدم کو حبس بے جا میں رکھنے کے جرم میں انہیں ایک سال کی سزا ہو گی۔

فیصلے کے مطابق اغوا میں مدد کرنے کے جرم میں مالی جان محمد کو 10 سال قید بامشقت سزا سنائی گئی۔

اغوا میں مدد کا جرم ثابت ہونے پر جان محمد کو ایک لاکھ روپے جرمانہ، اغوا کو چھپانے کے جرم میں 10 سال قید بامشقت کی سزا، قتل کے منصوبے کو چھپانے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ جان محمد اور چوکیدار محمد افتخار کو ایک جیسی سزائیں ہوئی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سینیئر وکیل شاہ خاور سے جب پوچھا کہ یہ سزائیں مجموعی طور پر چلیں گی یا ساتھ ساتھ، تو انہوں نے وضاحت کی کہ ساری سزائیں ایک ساتھ چلیں گی جبکہ جرمانہ سب کا الگ ادا ہو گا۔

 

ظاہر جعفر کے کیس میں انہوں نے بتایا چونکہ ان کی سب سے بڑی سزا سزائے موت ہے تو اس پر عمل درآمد ہو گیا تو باقی سزائیں اس میں شامل ہو جائیں گی۔

تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ سائنسی اور فرانزک شواہد نے ثابت کیا کہ نورمقدم کا قتل ظاہر جعفر کے ہاتھوں ہوا۔

نور مقدم کی لاش ظاہر جعفر کے کمرے سے برآمد کی گئی تھی۔ ملزمان کے وکلا استغاثہ کے شواہد کو جھٹلانے میں ناکام رہے۔

کن ملزمان کو بری کیا گیا اور کیوں؟

عدالت نے ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر، عصمت آدم کی کو بری کر دیا۔ اس کے علاوہ گھریلو ملازم جمیل احمد، تھراپی ورک کے سی ای او طاہر ظہور کو دیگر پانچ نامزد ملزمان سمیت بری ہوئے ہیں۔

فیصلے کی وجوہات میں بتایا گیا کہ تھیراپی ورکس کے مالک اور ملزم کے والدین کے ساتھ کوئی میسج یا آڈیو پیغام نہیں پیش کیا گیا۔ ٹھوس شواہد کے بغیر نہیں کہا جا سکتا کہ طاہر ظہور قتل کا علم رکھتے تھے اس لیے انہیں بری کیا گیا۔

ملزمان کو بری کرنے کی تفصیلی فیصلے میں وجہ بتائی گئی کہ عدالت کو یہ شواہد نہیں دیے گئے کہ ذاکر اور عصمت بیٹے کے قتل کے ارادے سے واقف تھے۔

استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ والدین بیٹے کے ارادے سے واقف تھے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ اٹھارہ سے بیس جولائی ذاکر جعفر اور عصمت آدم دونوں اسلام آباد موجود نہیں تھے بلکہ کراچی میں تھے۔

فیصلے کے مطابق واقعہ اُن کی غیر موجودگی میں ہوا۔ اسی طرح ظاہر جعفر کی والدین سے ہوئی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ یا ٹیکسٹ میسج موجود نہیں،صرف رابطے دکھاتی سی ڈی آر سزا کے لیے ناکافی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ وائس نوٹ یا کسی پیغام کے ثبوت کے بغیر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں بیٹھ کر والدین نے قتل میں سہولت کاری کی اس لیے انہیں بری کیا جاتا ہے۔

عدالت نے لکھا کہ باورچی جمیل احمد کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی دیے۔ وہ گیٹ پر بھی موجود نہیں تھے بلکہ گھر کے اندر تھے۔

جرم ہونے میں ان کا کوئی کردار ریکارڈ پر نہیں جس کی وجہ سے انہیں بری کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں واضح کیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے قانونی سقم موجود تھی جس کی نشاندہی دفاع وکلا نے کی۔

دالت نے کہا کہ شاید تفتیشی افسر نے ملزم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ محکمہ پولیس کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور ایکشن لیں۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ استغاثہ نے فرانزک اور سائنسی بنیادوں پر شواہد پیش کیے جس کی وجہ سے کیس ثابت ہوا ہے۔

کیس کا سیاق و سباق

واضح رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کو موقعے سے حراست میں لے گیا۔

ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ذاکر اور ان کی اہلیہ عصمت سمیت دو گھریلو ملازمین کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔

ملزم کی والدہ کی سپریم کورٹ سے ضمانت ہو چکی ہے جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔ والد سمیت نو ملزمان کو عدالتی فیصلے کے اڈایالہ جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان