سوات کا پکوان جسے ’سکندر اعظم نے بھی کھایا‘

تاریخ دانوں کے مطابق بدھ مت کے پیروکار سبزی خور ہیں اور سوات کی زمین پر روز اول سے سبزی اور ساگ ہی کاشت ہوتا چلا آیا ہے اس لیے ورجلی بدھ مت دور سے نسل در نسل منتقل ہونے والا ایک خصوصی پکوان ہے۔

سوات کا ایک خاص روایتی پکوان جو ’ورجلی‘  کہلاتا ہے، کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے سکندر اعظم کے لیے بھی تیار کیا گیا تھا اور بدھ مت دور سے یہ پکوان نسل درنسل یہاں کے باسیوں کو منتقل ہوا ہے۔

سوات کا یہ ایک خاص روایتی پکوان ہے جو مختلف ساگوں اور چاولوں کو ملا کر پکایا جاتا ہے جسے حرف عام میں قرجلے کہا جاتا ہے۔

اس کی تیاری میں مختلف اقسام کے ساگ جیسے شوتل، شلخے، پالک، او گکئی شامل ہوتے ہیں۔ کسی کے ہاں جب کوئی خاص مہمان آتا ہے تو ان کے لیے خصوصی پکوان ورجلی بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا ہے۔

جس طرح دنیا کے ہر خطے کی اپنی روایتی خوراک مشہور ہوتی ہے اُسی طرح وادی سوات میں ورجلی کافی مقبول ہے جسے گھروں میں پکایا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ خالص گاڑھا دودھ، بالائی، دیسی گھی، دہی اور سالن بھی رکھا جاتا ہے جس کے باعث اس کا ذائقہ دوبالا ہوجاتا ہے۔

ورجلی تیارکرنے والے والے سوات کے رہائشی فضل حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس پکوان میں صرف موٹے چاول ملائے جاتے ہیں اور دیگر قدرتی و طاقتور اجزا کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس ڈش تیار کرنے میں وقت اور پیسہ دونوں لگتا ہے اور یہ ہم خاص مہمانوں کے لیے ایک خاص وقت میں تیار کرتے ہیں۔‘

 فضل حمید نے مزید کہا کہ ’کھانا عموماً خواتین ہی تیار کرتی ہیں لیکن جب مہمان زیادہ ہو جاتے ہیں تو وہ پھر مرد بھی محنت اور لگن کے ساتھ اس کو تیار کرتے ہیں۔‘

فضل حمید کا کہنا ہے کہ ’سوات میں جب دور دراز علاقوں سے مہمان آتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں یا عزیز و اقارب سے ان خصوصی چاولوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے روایتی کھانوں کو بھول رہے ہیں جبکہ میری کوشش ہے کہ ورجلی پکوان کو زندہ رکھوں ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فضل حمید خان مزید کہتے ہیں کہ ’اس کو تیار کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک آرگینک چاول ہے۔ اس کے لیے دیسی گھی اور دہی گاؤں میں لوگوں سے ہی اکھٹا کیا جاتا ہے تو اس کا اپنا ایک معیار اور مزہ ہوتا ہے۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد عابد امین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ورجلی واقعی ایک روایتی اور مزیدار ڈش ہے۔‘

ان کے مطابق ’سوات میں ہم نے اپنے دوستوں کو مجبور کیا تو اس لیے ہمیں ورجلی کھانے کا موقع ملا، جس طرح اس ڈش کے بارے میں سنا تھا کھانے کے بعد اس سے بڑھ کر اس کو پایا۔‘

محمد عابد امین پیشے کے لحاظ سے فٹنس ایکسپرٹ ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کو تیار کرنے میں جو بھی چیزیں استعمال ہوئی ہیں وہ تمام تر صحت کے لیے موزوں ہے۔‘

سوات کے شیر بہادر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سکندر اعظم سوات آیا تھا تو ان کی تواضع بھی ورجلی سے کی گئی تھی، کیونکہ اس وقت چاول کو مختلف قسم کی سبزیوں کے ساتھ ملا کر ایک مخصوص کھانا بنایا جاتا تھا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ آج کے ورجلی اور اس وقت کے پکوانوں میں کافی یکسانیت ہے اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ سکندر اعظم بھی ورجلی نوش کر چکے ہیں۔‘

تاریخ دانوں کے مطابق بدھ مت کے پیروکار سبزی خور ہیں اور سوات کی زمین پر روز اول سے سبزی اور ساگ ہی کاشت ہوتا چلا آیا ہے اس لیے ورجلی بدھ مت دور سے نسل در نسل منتقل ہونے والا ایک خصوصی پکوان ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان