’چار آنے کا کام نہیں رہا‘: مری میں فر کا سامان بنانے والے کاریگر

مری میں آٹھ جنوری کو شدید برف باری سے سیاحوں کی اموات کے بعد فر سے مختلف اشیا بنا کر فروخت کرنے والوں کا پورا سیزن داؤ پر لگ گیا۔

مشہور سیاحتی مقام مری کے بعض دیہاتوں میں ہر دوسرے گھر میں ہنر مند افراد فر کے کوٹ، چوغے، بیگ اور ٹوپیاں تیار کرتے آئے ہیں۔

یہ اشیا جب مری بازار کی دکانوں پر سلیقے سے رکھی نظر آئیں تو سیاحوں کا انہیں خریدنے کا دل کرتا ہے۔

1946 میں مری کے ایک مضافاتی گاؤں بن کوٹل میں پیدا ہونے والے محمد ظریف عباسی گذشتہ پانچ عشروں سے فر سے مختلف چیزیں بنانے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ کوٹ، بیگ اور دیگر اشیا بنانے کے علاوہ قراقلی ٹوپی بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ظریف 1962 سے قراقلی ٹوپی بنا رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں اتنی مہنگائی نہیں تھی مگر پیسہ بھی کسی کے پاس نہیں تھا اس لیے شروع میں راولپنڈی میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ٹوپیاں بنائیں اور فروخت کیں۔

ظریف نے بتایا کہ انہوں نے 1972 میں گاؤں آ کر فر سے مختلف اشیا بنانا شروع کیں اور وہ پہلے ہنرمند تھے جنہوں نے مری میں یہ کام شروع کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس فن کو دیہات کے لوگوں کو سکھایا جس سے جلد ہی بہت سارے خاندان اس کام کے ساتھ منسلک ہو گئے اور تقریباً آج اڑھائی سو خاندان مری کے مضافاتی دیہاتوں سے اپنا مال بنا کر مری بازار میں فروخت کرتے ہیں۔

مری میں ہنر مند افراد کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’دا رورل ایریاز ڈیولیپمنٹ آرگنائزیشن‘ (راڈو) کے ایک سینیئر عہدے دار عبدالرحیم عباسی نے بتایا کہ یوں تو مری میں ہر وقت ہی خریداروں کا رش لگا رہتا ہے لیکن موسم سرما میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

مقامی ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار یہ مختلف اشیا ملک بھر کے علاوہ غیر ملکی سیاح بھی شوق سے خریدتے ہیں۔

ظریف بتاتے ہیں کہ وہ فر کا سامان کراچی سے خود جا کر لاتے ہیں جب کہ بعض اوقات آرڈر پر منگوا لیتے ہیں۔

ان کے بقول مہنگائی کی وجہ سے خالص فر کا کام کم ہو گیا ہے اس لیے وہ مصنوعی فر سے بھی کوٹ اور بیگ تیار کرتے ہیں جن کی مری شہر میں بہت زیادہ مانگ ہے۔

عبدالرحیم نے بتایا کہ ان کی تنظیم مقامی لوگوں کو اس متعلق ضروری معلومات اور رہنمائی فراہم کر رہی ہے کیوں کہ مقامی نوجوان دست کاری کو سیکھنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔

ان کے بقول نئی نسل اگر یہ کام سیکھ لیتی ہے تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنا روزگارخود ہی پیدا کرسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں سال آٹھ جنوری کو مری میں شدید برف باری کے نتیجے میں سیاحوں کی اموات کے بعد مری میں ان کی آمد و رفت کم ہو گئی ہے جس سے یہ ہنر مند طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ظریف کے بقول: ’جب مری میں سیاح آتے تھے تو ہمارا کام اچھا ہوتا تھا۔ گرمیوں میں بھی اچھا ہوتا تھا سردیوں میں بھی اچھا ہوتا تھا۔‘

’برف باری جس دن شروع ہوئی اس دن تک ہمارا کام ٹھیک تھا۔ چوں کہ مری کا کام چلتا ہی سیاحوں پر تھا اب بالکل کام ہے ہی نہیں تو ہم سب پریشان ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سیاح نہ آئیں تو اس کا کیا کریں۔ ’ہم مقامی لوگ تو یہ اشیا نہیں خریدتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مری کے دکان داروں کا انحصار سیاحوں پر تھا لیکن وہ بھی اب مشکل حالات کا شکار ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا