مرسی، مینگل: دو پنجرے دو جنرل

انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے اقبال حیدرکی جانب سے نو جنوری 2007 کو اخبارات کو جو خبرجاری کی گئی اس میں بتایا گیا تھا کہ اخترمینگل کوعدالت میں ایک پنجرے میں قید رکھا گیا۔

‎ آج 21 ویں صدی میں، ایک ایسے زمانے میں جب ہم بہت مہذب اور غیر معمولی طور پر ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں، جب آئین، قانون اور انسانی حقوق کی بالادستی کی باتیں ہمارے روزمرہ اور محاورے کا حصہ بن چکی ہیں، اور ہم پتھر کے زمانے کی کہانیاں سن کر حیران ہوتے ہیں جب غلاموں اور قیدیوں کو باقاعدہ پنجروں میں رکھا جاتا تھا۔

کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ اس اکیسویں صدی میں بھی کسی کو پنجر ے میں رکھا جا سکتا ہے اور کوئی پنجرے میں بیان دیتا ہوا جان کی بازی ہار سکتا ہے؟

لیکن یہ انہونی اسی اکیسویں صدی میں ہو گئی۔ جس روز ہم بھارت کے خلاف کرکٹ میچ میں پاکستان کی شکست کے اسباب تلاش کر رہے تھے، ہارنے والوں کا مذاق اڑا رہے تھے اور ان کی مضحکہ خیز تصویریں وائرل ہو رہی تھیں، ایسے میں اچانک ایک خبر آئی اور ہمیں بدمزہ کر گئی۔

خبر یہ تھی کہ مصر کے سابق صدرمحمد مرسی کا عدالت میں بیان دیتے ہوئے انتقال ہو گیا ہے۔ ہم تو گذشتہ چھ برسوں کے دوران مرسی کو بھول ہی چکے تھے اور پھر جب اچانک ان کی موت کی خبر آئی تو معلوم ہوا کہ مرسی تو پنجر ے میں قید تھے۔ انہوں نے پنجرے میں کھڑے ہو کر ہی عدالت میں بیان دیا اوراسی دوران وہ بے ہوش ہوئے اور جان کی بازی ہار گئے۔

مصر کے سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی ہے۔

محمد مرسی کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ وہ مختصر عرصے کے لیے برسر اقتدارآئے۔ مصر کے عوام نے انہیں بہت چاﺅ کے ساتھ صدر منتخب کیا تھا۔ وہ مصر کے پہلے منتخب صدر تھے لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں پر زندگیاں تنگ کر دیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا اور نیا اسلامی قانون اسمبلی سے منظور کروا لیا۔ حسنی مبارک کے دور کے ججوں کو منظر ہٹا دیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی بے اختیار کر دیا۔

مرسی اختیارات کے زعم میں فوج سے بھی چھیڑ چھاڑ کر چکے تھے اور انہوں نے آرمی چیف اور جوائنٹ سروسز چیف کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ کسی بھی ملک کی فوج کے لیے ایسی گستاخی ناقابل معافی ہوتی ہے۔ پھرجنرل السیسی نے مرسی کاتختہ الٹ دیا اور انہیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ انہیں سزائے موت سنائی گئی جو بعد ازاں عمرقید میں تبدیل ہو گئی۔

مرسی گذشتہ چھ برس سے زیرحراست تھے۔ ان کا نام منظر سے غائب ہو چکا تھا۔ انہیں پنجرے میں ہی قید کر کے ہی عدالت میں لایا جاتا تھا لیکن انسانی حقوق کی اس پامالی پر اس مہذب دنیا نے کوئی توجہ نہ دی۔ محمدمرسی کے طرز حکمرانی سے ہمیں اتفاق نہیں تھا۔ ہم ان کے انتہاپسندانہ نظریات سے بھی متفق نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی موت پر دکھ ہوا۔

اورپھر ہم نے غور کیا کہ کیا مصر کے فوجی حکمران اس قدر سفاک ہیں کہ وہ ایک انسان کو آج کے جدید اور مہذب دور میں بھی پنجرے میں رکھتے ہیں؟

پھر ہمیں یاد آیا کہ ایسا واقعہ تو خود ہمارے ملک میں بھی رونما ہو چکا ہے۔ ہمارے حافظے چونکہ بہت کمزور ہیں اورہم دانستہ بھی ایسی باتیں بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے تو پھر ہمیں ہمارا تکلیف دہ ماضی بھی یاد آ جاتا ہے۔

اختر مینگل کانام آج بھی خبروں میں زیربحث رہتا ہے۔ وہ بلوچستان کی ایک توانا آواز ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں اختر مینگل کو ایجنسیوں نے حراست میں لیا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر بگٹی کو اگست 2006 میں قتل کیا جا چکا تھا۔ اخترمینگل سمیت تمام جمہوریت پسند اس قتل کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اخترمینگل اور ان کے ساتھیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ معروف قانون دان اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے اقبال حیدرکی جانب سے نو جنوری 2007 کو اخبارات کو جو خبرجاری کی گئی اس میں بتایا گیا تھا کہ اخترمینگل کوعدالت میں ایک پنجرے میں قید رکھا گیا۔

ان کے وکلا کو بھی ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دس جنوری 2007 کو حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی اس رپورٹ کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ اخترمینگل کو پنجرے میں رکھنے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

حکومتی ترجمان نشاط احمد خان نے کہا کہ ان کا ٹرائل پولیس اور محکمہ داخلہ سندھ کی درخواست پر انتہائی حفاظتی انتظامات میں کیا جا رہا ہے کیونکہ اخترمینگل کی جان کو ان کے دشمنوں کی جانب سے خطرہ ہے۔ بعد ازاں اقبال حیدر نے بتایا کہ میں کمرہ عدالت میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ عدالت کے ایک حصے کو فرش سے چھت تک لوہے کی سلاخیں لگا کر باضابطہ پنجرے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس پنجرے کا ایک الگ آہنی دروازہ تھا اور اخترمینگل کو ایک عقبی دروازے سے اس پنجرے میں لایا گیا۔ انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی ان کے وکلا اس موقعے پر موجود تھے۔

جب ہمارے اپنے ملک میں ایسی مثالیں موجود ہوں تو پھر مرسی کو پنجرے میں رکھے جانے پر ہماری حیرت اور افسوس بے معنی ہو جاتا ہے۔ جرنیلوں کا طرزحکمرانی ایسا ہی ہوتا ہے۔

اخترمینگل کو پنجرے میں رکھنے والا پرویز مشرف غداری کے مقدمے کے باوجود بیرون ملک مقیم ہے اور سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوتا، اور جنرل السیسی کوبھی سردست کوئی پوچھنے والا نہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ