روسی حملے کے بعد سے ایک کروڑ یوکرینی گھر چھوڑ گئے: اقوام متحدہ

یو این ایچ سی آر نے بتایا کہ گھر بار چھوڑنے والوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 34 لاکھ ہمسایہ ممالک چلے گئے۔

19 مارچ، 2022 کو جنوب مشرقی پولینڈ میں ایک سپاہی سرحد عبور کر کے آنے والوں کی مدد کر رہا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے اتوار کو کہا کہ روسی حملے کے بعد سے اب تک ایک کروڑ افراد، آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ، یوکرین میں اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
یو این ایچ سی آر نے کہا کہ گھر بار چھوڑنے والوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 34 لاکھ ہمسایہ ممالک، زیادہ تر پولینڈ چلے گئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے کہا، ’دنیا میں ہر جگہ جنگ کرنے والوں کی ذمہ داریوں میں سے عام شہریوں کو پہنچایا جانے والے مصائب بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔‘
’یوکرین میں جنگ اتنی تباہ کن ہے کہ ایک کروڑ لوگ یا تو ملک کے اندر بے گھر ہو گئے ہیں، یا پھر بیرون ملک پناہ گزینوں کے طور پر۔‘


ماریوپول کا محاصرہ: ’ایسی دہشت گردی،جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا‘

یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے ساحلی شہر ماریوپول کا محاصرہ ’ایک ایسی دہشت گردی ہے، جسے آنے والی صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔‘

 

ہفتہ (19 مارچ) کو رات دیر گئے نشر کیے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں زیلنسکی نے کہا کہ ماریوپول کا محاصرہ ’تاریخ میں جنگی جرائم کے زمرے میں آئے گا۔‘

یوکرینی صدر نے کہا کہ روس یوکرین کے خلاف جتنی زیادہ دہشت پھیلائے گا، اس کے نتائج اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس کے ساتھ امن مذاکرات کی ضرورت ہے، حالانکہ یہ آسان نہیں ہوں گے۔


’شہر تباہ ہوگیا‘: روسی فوج ماریوپول میں داخل، یوکرینیوں کی مدد کی اپیل

روسی افواج یوکرین کے محصور اور تباہ حال ساحلی شہر ماریوپول میں مزید اندر تک داخل ہوچکی ہیں، جہاں شدید لڑائی کے بعد سٹیل پلانٹ بند کر دیا گیا ہے جبکہ یوکرینی حکام نے مغرب سے مدد کی اپیل کی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ماریوپول کا سقوط، جنگ کے بدترین مصائب کا منظر پیش کر رہا ہے جو روسیوں کے لیے میدانِ جنگ میں ایک بڑی پیش قدمی ہے، جس کی فوجیں یوکرین کے کئی شہروں کے باہر تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہیں۔

ماریوپول کے ایک پولیس افسر مائیکل ورشنن نے روسی گولہ باری سے ملبے کا ڈھیر بنی عمارتوں کے سامنے ایک ویڈیو پیغام میں مغربی رہنماؤں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں بچے، بوڑھے سب لوگ مر رہے ہیں۔ شہر تباہ ہو گیا ہے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔‘

نیو یارک ٹائمز سے بات کرنے والے یوکرین کے ایک فوجی اہلکار کے مطابق ہفتے کے روز ایک راکٹ حملے کے بارے میں بھی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جس میں گذشتہ روز جنوبی شہر میخولائیو میں 40 فوجی ہلاک ہوئے۔

روسی افواج پہلے ہی بحیرہ ازوف سے ماریوپول کا راستہ باقی دنیا سے کاٹ چکی ہیں اور اس کے سقوط سے کرائمیا، جس پر روس نے 2014 میں قبضہ کرلیا تھا، کو ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول مشرقی علاقوں سے جڑ جائے گا۔

یہ یوکرین کی شدید مزاحمت کے سامنے روس کی ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ یوکرین کی اس غیر معمولی مزاحمت نے روس کی جلد فتح کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔

یوکرین اور روسی افواج کے درمیان ماریوپول کے ازووسٹل سٹیل پلانٹ پر قبضے کے لیے گھمسان کا رن پڑا۔

لڑائی کے بعد یوکرین کے وزیر داخلہ کے مشیر وادیم ڈینیسنکو نے ہفتے کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ’یورپ کے سب سے بڑے سٹیل پلانٹس میں سے ایک درحقیقت تباہ ہو رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماریوپول سٹی کونسل نے کئی گھنٹے بعد دعویٰ کیا کہ روسی فوجیوں نے شہر کے کئی ہزار باشندوں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے، کو زبردستی روس منتقل کر دیا ہے۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں روس میں کہاں لے جایا گیا ہے۔

یوکرین کے صدر کے مشیر اولیکسی آریسٹوویچ نے کہا کہ قریب ترین ملکی افواج جو ماریوپول کی مدد کرسکتی ہیں، پہلے ہی ’دشمن کی زبردست طاقت‘ کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں اور شہر سے کم از کم 100 کلومیٹر  دور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماریوپول کا فی الحال کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ’یہ صرف میری ذاتی نہیں بلکہ فوج کی رائے ہے۔‘

ادھر میخولائیو میں، امدادی کارکن سمندری بیرکوں کے ملبے میں تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جو جمعے کو بظاہر میزائل حملے میں تباہ ہو گئے تھے۔ خطے کے گورنر نے کہا کہ حملہ کے وقت میرینز ان بیرکوں میں سو رہے تھے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت کتنے میرینز اندر موجود تھے تاہم ریسکیو ٹیمیں اگلے دن بھی ملبے میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے تھے۔

لیکن یوکرین کے ایک سینیئر فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اس حملے میں 40 کے قریب میرینز مارے گئے ہیں۔

دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے گذشتہ روز کہا تھا کہ روس یوکرین کے شہریوں کو بھوک سے مارنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ حملے جاری رکھنے سے ماسکو کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

انہوں نے مزید خونریزی کو روکنے کے لیے روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا