کیا روس یوکرین میں ’اربن وار‘ کی طرف جا رہا ہے؟

یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ روسی فوجی یوکرین کے شہروں پر توجہ مرکوز کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو اب تک ان کی گرفت سے بچے ہوئے تھے۔

یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے آغاز کے تقریباً تین ہفتے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ جلد اگلے مرحلے یعنی شہری جنگ (اربن وار) میں تبدیل ہوسکتی ہے، جو تعداد کے لحاظ سے بڑی فوجوں کے لیے بھی ایک بڑا اور مشکل چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ روسی فوجی یوکرین کے شہروں پر توجہ مرکوز کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو اب تک ان کی گرفت سے بچے ہوئے تھے۔

روسی توپ خانے اور راکٹ دارالحکومت کیئف سمیت چھوٹے علاقائی مراکز جیسے خارکیو، ماریوپول اور چرنیہیو سمیت کئی شہروں پر حملہ کر رہے ہیں۔

وہاں کے باشندے اور ساتھ ہی ساتھ اوڈیسا کی جنوبی بندرگاہ میں، جو ایک اور سٹریٹجک ہدف ہے، اب ممکنہ زمینی حملوں کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ایسے میں عسکری ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول چیچنیا کے دارالحکومت کے خلاف روس کی جارحیت والی صورت حال دہرائی جاسکتی ہے۔

میڈیسن پالیسی فورم میں اربن وار کے ماہر میجر (ریٹائرڈ) جان سپینسر کہتے ہیں کہ ’شہری علاقوں کا دفاع کرنا یوکرین کی بہترین حکمت عملی ہے، کیونکہ ہم اسے عظیم برابری کہتے ہیں۔‘

جان سپینسر نے کہا: ’یہاں تک کہ جدید ترین فوج، جن میں مغربی فوجیں بھی شامل ہیں، شہری علاقوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے انتہائی تکنیکی فوائد کا بہت زیادہ استعمال نہیں کرسکتیں۔‘

’وہ طویل فاصلے کی درستگی، آئی ایس آر (انٹیلی جنس، نگرانی، ہدف کے حصول اور سراغ رسانی، ایڈ) کا بہت زیادہ استعمال نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی فوج کسی اور فوج کو قریب سے مشغول نہیں کرنا چاہتی۔‘

ان کے مطابق: ’ہم ہمیشہ جہاں تک ہو سکے انہیں مشغول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہری علاقہ قریبی لڑائی پر مجبور کرتا ہے۔‘

بقول جان سپینسر: ’مجھے شک ہے کہ وہ شہروں کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کریں گے جس طرح انہوں نے چیچنیا میں کیا تھا لیکن اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ شہری حملے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بھاری تباہی دیکھنے والے ہیں۔‘

اسی طرح برطانیہ میں رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ کے دفاعی ماہر لانس ڈیوس کہتے ہیں کہ ’شہری آپریشن فوجی دستوں، کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے بدترین خواب ہیں۔‘

’گھر گھر وحشیانہ لڑائی میں پھنس جانے کا امکان تقریباً یقینی ہے اور کیئف پر حملے کے لیے وسائل اور افرادی قوت میں بہت زیادہ عزم کی ضرورت ہوگی۔‘

لانس ڈیوس کے مطابق اس حوالے سے شکوک و شبہات باقی ہیں کہ ’آیا روس کے پاس یوکرین کے شہری علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے درکار وسائل موجود ہیں اور کیا ماسکو اور صدر ولادی میر پوتن اپنے فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ایک فرانسیسی فوجی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور قوتوں کو اپنی تعداد، دفاع کرنے والوں کے برعکس ایک کے مقابلے میں دس تک بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ محافظوں کو علاقے کو جاننے کا فائدہ ہوتا ہے۔

’محافظ مقامی عمارتوں پر اونچائی کے فوائد سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس میں روسی ٹینک اور دیگر بکتر بند گاڑیاں اوپر سے حملوں کا خطرہ رکھتی ہیں۔‘

اسرائیلی تھنک ٹینک جے آئی ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ایلگزینڈر گرنبرگ کا کہنا ہے کہ ’شہری علاقوں میں ٹینک بھیجنا خودکشی ہوگی۔‘

’وہ تدبیریں نہیں کر سکتے اور نہ ہی اِدھر اُدھر گھوم سکتے ہیں۔۔۔ شہروں کو فتح کرنے کے لیے، آپ کو پیشہ ورانہ پیدل فوج کی ضرورت ہے جو بہت حوصلہ افزا ہو کیونکہ یہ ہمیشہ بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’17-2016  کے درمیان عراقی فوج کو موصل میں خود کو دولت اسلامیہ (داعش) کہلوانے والے گروپ سے چند ہزار جہادیوں کو نکالنے کے لیے آٹھ ماہ کا وقت درکار تھا، جب انہوں نے شہر پر قبضہ کرلیا تھا۔‘

تاریخ

امریکی ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ کے ماڈرن وار انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے جان سپینسر کہتے ہیں کہ شہروں میں لڑائی نسبتاً جدید رجحان ہے۔

زمانہ قدیم اور قرون وسطیٰ میں، فوجیں شہروں کا محاصرہ کرتی تھیں لیکن لڑائی عام طور پر ان کے قلعوں پر ہوتی تھی اور آبادیوں کو اکثر تابعداری میں بھوکا رکھا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد فوجوں کے درمیان آباد علاقوں کی بجائے کھلی جگہوں پر لڑائیاں ہوئیں۔

’یہ دوسری عالمی جنگ تک نہیں تھا کہ مغربی فوجی فارمیشن کو شہروں میں بھاری اور متواتر لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ان کے مطابق: ’اس طرح کی لڑائیوں کا آغاز 43-1942 میں سوویت اور نازی افواج کے درمیان روسی شہر سٹالن گراڈ (اب وولگوگراڈ) کی لڑائی تھی، جس میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔‘

واضح رہے کہ روسی حملے سے قبل ہی یوکرین کے بہت سے شہریوں نے علاقائی دفاعی یونٹوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور لڑائی میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

دارالحکومت کیئف کے میئر وٹالی کلِٹسکو، جو سابق باکسنگ چیمپیئن بھی رہ چکے ہیں، نے انسٹاگرام پر لکھا: ’ہر گھر، ہر گلی، ہر چوکی اس وقت تک مزاحمت کرے گی، جب تک ضروری ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا