یوکرین جنگ: پولینڈ کو پاکستان سے کیا سبق سیکھنا چاہیے؟

پولش حکام متنبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک کے بہت سے حصے مزید پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت کی انتہا کے قریب ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے پولش حکام اور سول سوسائٹی کی جانب سے یوکرین سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کی مدد پر تعریف کی ہے تاہم وہاں پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد اب تک تین ہفتوں کے اندر 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف جنگ میں جیسے جیسے وسعت اور شدت آ رہی ہے ویسے ویسے پناہ گزینوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ایسی صورتحال میں یوکرین کے ہمسایہ ملک پولینڈ کو تقریباً پاکستان جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان نے گذشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کا کردار ادا کیا ہے جس کی تعریف عالمی امدادی ادارے اور ممالک بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں پولینڈ پاکستان سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنے فائدے کے لیے بہترین انداز میں بروکار لاسکے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے پولش حکام اور سول سوسائٹی کی جانب سے یوکرین سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کی مدد پر تعریف کی ہے تاہم وہاں پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد اب تک تین ہفتوں کے اندر 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

پولش حکام متنبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک کے بہت سے حصے مزید پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت کی انتہا کے قریب ہیں۔ یوکرین سے پولینڈ میں داخل ہونے والے 20 لاکھ افراد میں سے کچھ یورپی یونین کے دیگر ممالک چلے گئے ہیں تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اکثریت ابھی بھی پولینڈ میں ہے۔

24 فروری کے بعد سے یوکرین چھوڑ کر پڑوسی ممالک جانے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد کا تخمینہ 32 لاکھ سے زیادہ ہے۔

دستاویزی شکل

پولینڈ کو بھی پاکستان کی طرح ایک ایسا جدید مربوط نظام اپنانا چاہیے جو پناہ گزینوں کی آمد سے لے کر ان کی کسی دوسرے ملک جانے یا قیام کا شہر/علاقہ تبدیل کرنے کی معلومات ریکارڈ میں رکھے۔ اس سے حکام کو ان تک امداد اور سہولیات پہنچانے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان میں آج بھی سرکاری طور پر اعدادوشمار اندراج کروانے والے اور نہ کروانے والوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ حکومت کو بغیر دستاویزات کے موجود افغانوں کی درست تعداد شاید معلوم نہیں۔

طویل مدتی قیام

پناہ گزینوں کی بڑی تعداد اور طویل قیام کسی بھی میزبان معاشرے کے لیے خاص طور پر اس کی معیشت اور ملازمت کے موقعوں کے لیے مضمرات رکھتا ہے۔ پاکستان غیر مستحکم علاقائی صورت حال میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا آ رہا ہے اور اپنے محدود وسائل اور نسبتا کمزور جسمانی بنیادی ڈھانچے کے اندر اقدامات کر رہا ہے لیکن اس نے پناہ گزینوں کے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کافی اچھے طریقے سے کی ہے۔ اسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس نے افغانستان کے پریشان حال لوگوں کو مدد کا ہاتھ دینے سے گریز نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماجی سطح پر افغانوں کی طویل موجودگی کے خلاف کبھی کبھار آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن مجموعی رائے عامہ ان کے خلاف نہیں رہی ہے۔ پولینڈ اور دیگر ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لیے طویل مدتی پالیسی پر مغربی امداد سے ابھی سے کام شروع کر دیا جانا چاہیے۔ یوکرین کی جنگ شاید زیادہ طویل نہ ہو لیکن پناہ گزین جلد واپس جانے کو تیار نہ ہوں۔

ابتدا میں کسی ایسی پالیسی کی عدم موجودگی نے پاکستان کو معاشی طور پر کافی منفی اثر چھوڑا۔

بوجھ نہیں موقع

تارکین وطن محض بوجھ نہیں ہیں۔ ان کی ورک فورس کو کچھ کوششوں سے اثاثے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پناہ گزینوں کی صلاحیتوں کی پائیدار ترقی کا نقطہ نظر ان کی وطن واپسی میں مدد کرتا ہے۔ بہت سے افغان اب اپنے طور پر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی نئی نسلیں تیزی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور تجارت اور کاروبار میں داخل ہو رہی ہیں۔

غریب یہاں امیر وہاں

پاکستان کے ساتھ یہ سلسلہ گذشتہ کئی دھائیوں سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور اشرفیہ افغان پناہ گزینوں نے تو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا فورا رخ کیا لیکن ان پڑھ، ان سکیلڈ اور غریب پاکستان ہی رہ گئے۔ اس سے میزبان ملک کی معیشت پر شدید بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ تو پولینڈ کو بھی اس شرط پر کھاتے پیتے یوکرینی شہریوں کو پناہ دینی چاہیے کہ وہ ایک مخصوص مدت سے پہلے ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ اس طرح ان امیر یوکرینیوں کو پولینڈ میں اپنا سرمایہ لگانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ماحول کو نقصان 

لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی آمد اور ان کے رہن سہن کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے مقامی ماحول پر بھی انتہائی منفی اثر پڑا۔ مقامی وسائل پر بوجھ یقینا پڑا کیونکہ درخت کاٹے گئے اور صاف پانی کا استعمال بڑھ گیا۔ 

یوکرین کے پناہ گزینوں کے میزبان ممالک کو ان کی ضروریات کا پہلے سے بندوبست کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی امداد سے ان کی ضروریات کو پورا کیا گیا تو ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کم ہو سکتے ہیں۔ 

یوکرین کا مستقبل

پناہ گزینوں کی واپسی کا بڑی حد تک انحصار اس بات پر ہوگا کہ روس کتنی دیر میں مکمل قبضہ حاصل کرتا ہے اور پھر کب تک اس قبضے کو رکھ سکتا ہے۔ روس کی موجودگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں یہ پناہ گزین شاید جلد واپس جانے کا ارادہ نہ کریں۔ ایسے میں یورپ اور خاص کر پولینڈ کو ایک طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا