بی جے پی کا گوا اور اتراکھنڈ میں وزرائے اعلیٰ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ

دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق گوا اور اتراکھنڈ میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا مقصد پارٹی میں اندرونی مساوات اور 2024 کے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے بیرونی حالات میں استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ  پشکر سنگھ دھامی (دائیں) اور  گوا  کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت (تصاویر: این ڈی ٹی وی/  @swantrabjp ٹوئٹر اکاؤنٹ)

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے منی پور میں این برن سنگھ کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کے ایک دن بعد اتراکھنڈ اور گوا میں بھی وزرائے اعلیٰ کے لیے پشکر سنگھ دھامی اور پرمود ساونت کو برقرار رکھا ہے۔

بھارتی آن لائن اخبار دی ہندو کے مطابق پارٹی کی مقننہ پارٹی کے اجلاسوں کے دوران اتراکھنڈ اور گوا میں سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے پشکر سنگھ دھامی اور پرمود ساونت کو رہنما منتخب کیا گیا۔

حالیہ اسمبلی انتخابات میں جہاں بی جے پی نے اکثریت حاصل کی تھی وہیں پشکر سنگھ دھامی کھتیما کی اپنی نشست ہار گئے تھے۔ اس حقیقت کے باوجود اتراکھنڈ میں انہیں وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کا فیصلہ  آیا ہے۔

یہ فیصلہ 2017 کے برعکس ہے جب ہماچل پردیش میں پریم کمار دھومل کو اپنی نشست ہارنے کے بعد حکومت سے باہر بیٹھنا پڑا تھا جبکہ پارٹی جیت گئی تھی اور منتخب ممبران اسمبلی میں سے جے رام ٹھاکر وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

چونکہ اتراکھنڈ اسمبلی میں ایوان بالا یا قانون ساز کونسل نہیں اس لیے پشکر سنگھ دھامی کو اب چھ ماہ کے اندر ضمنی انتخاب جیت کر اسمبلی کے لیے منتخب ہونا پڑے گا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارٹی ممبران اسمبلی کے انتخاب کے طور پشکر سنگھ دھامی کے نام کا باضابطہ اعلان کیا۔

انہوں نے مقننہ پارٹی کے اجلاس کے بعد کہا: ’میں پشکر سنگھ دھامی کو بی جے پی مقننہ پارٹی کا رہنما منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے پورا اعتماد ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی  اور دھامی کی قیادت میں اتراکھنڈ ہمہ جہت ترقی کرے گا۔‘

راج ناتھ سنگھ اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ میناکشی لیکھی کو پارٹی نے اجلاس کے لیے مرکزی مبصرین مقرر کیا تھا۔

پارٹی ذرائع نے دی ہندو کو بتایا کہ گوا اور اتراکھنڈ دونوں میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا مقصد پارٹی میں اندرونی مساوات اور 2024 کے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے بیرونی حالات میں استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

ایک انتخابی سال کے دوران اتراکھنڈ میں وزارت اعلیٰ میں لگاتار دو تبدیلیوں — ترویندر سنگھ راوت سے تیرتھ سنگھ راوت – اور گوا میں بی جے پی کے سب سے طاقت ور رہنما منوہر پاریکر کے انتقال کے بعد پرمود ساونت تک گوا پشکر سنگھ دھامی اور پرمود ساونت دونوں نے پارٹی کی ان شاخوں کو مستحکم کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اترپردیش میں کیے جانے والے فیصلوں اور وہاں حکومت سازی کے حوالے سے دھامی کا قانون ساز پارٹی رہنما کے طور پر انتخاب خاص طور پر اہم ہے کیونکہ سابق نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ جو اب بھی ایم ایل سی ہیں، سیراتھو سے اپنا اسمبلی رائے شماری ہار گئے تھے۔

اگرچہ موریہ کے نامزد وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں لیکن گوا پشکر سنگھ دھامی کے بطور وزیراعلیٰ تسلسل کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ موریہ کو نئی یو پی حکومت میں بھی جگہ دی جاسکتی ہے۔

گوا میں ساونت نے اپنی اسمبلی نشست جیت لی تھی لیکن انہیں وشوجیت رانے کی طرف سے اندرونی قیادت کے مسائل درپیش تھے، جنہوں نے وزیر اعلیٰ کے نام کے اعلان تک 11 دنوں میں گورنر سریدھرن پلائی کے ساتھ ملاقاتیں کر کے کافی ہنگامہ کیا تھا۔

دہلی کے مرکزی مبصرین، مرکزی وزرا نریندر تومر اور ایل مورگن نے پانجی میں مقننہ پارٹی کے اجلاس کی نگرانی کی جس میں ویشو جیت رانے نے پرمود ساونت کا نام تجویز کرتے ہوئے قرارداد پیش کی۔

نریندر تومر نے  اجلاس سے باہر آکر کہا: ’وشوجیت رانے نے قانون ساز پارٹی کے رہنما کے طور پر پرمود ساونت کے نام کی تجویز پیش کی۔

سب نے متفقہ طور پر پرمود ساونت کو رہنما منتخب کیا۔ وہ اگلے پانچ سال تک رہنما رہیں گے۔‘

این ڈی ٹی وی کے مطابق میڈیا سے بات کرتے ہوئے نریندر تومر نے کہا کہ پرمود ساونت کا نام متفقہ تھا۔

آن لائن اخبار دی ہندو سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق گوا میں کابینہ کی تشکیل دو حصوں میں ہوسکتی ہے۔

پہلے مرحلے میں بی جے پی سے پرمود ساونت، رانے اور مووین گوڈینہو، مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی (ایم جی پی) کے رہنما سدھین دھاولیکر اور آزاد امیدوار الیکسیو ریجینالڈو لورینکو حلف اٹھائیں گے۔

 ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ شمالی گوا کے چار اور بعد میں جنوبی گوا سے بھی اتنے ہی ایم ایل اے نئی حکومت کا حصہ ہوں گے۔

اتراکھنڈ میں بی جے پی نے 70 میں سے 47 نشستیں حاصل کیں جبکہ گوا میں اس نے 40 میں سے 20 نشستیں حاصل کیں اور اسے دو آزاد امیدواروں اور ایم جی پی کے دو ایم ایل اے کی حمایت حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا