پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گذشتہ سال امریکہ میں خودکشی کرنے والی لڑکی کو مبینہ طور پر بلیک میل اور ہراساں کرنے میں ملوث دو نوجوانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم محمد ارسلان اور کمال انور کو فیصل آباد کے نواحی علاقے ڈجکوٹ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 23 مارچ کی رات ان ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ 24 مارچ کو ان کا ریمانڈ ہوا ہے اور اب امریکی سفارتخانے کو آگاہ کرنے کے لیے باضابطہ طور پر جو کرنا ہوا وہ ایف آئی اے ضرور کرے گا۔
فیصل آباد میں ایف آئی اے کے سرکل انچارج سید ارشد علی رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’خودکشی کرنے والی لڑکی نابالغ تھی اور ان کی عمر 17 سال کے قریب تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ خاتون امریکہ کی شہری تھیں، وہیں پیدا ہوئیں اور وہیں پر مقیم تھیں۔
’فیس بک کے ذریعے سب سے پہلے ان کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی، فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے کے بعد پھر ان سے بات چیت شروع کی، بات چیت کے دوران انہوں نے ان سے قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر منگوائیں، جب وہ آ گئیں تو پھر انہوں نے انہیں بلیک میل اور ہراساں کرنا شروع کر دیا اور انہیں مجبور کرنا شروع کر دیا کہ وہ ان سے ان ٹچ رہے۔‘
ایف آئی اے کے سرکل انچارج سید ارشد علی رضوی کے مطابق ’جب وہ لڑکی انہیں اپنی مزید ویڈیوز یا تصاویر نہیں بھیجتی تھیں تو یہ ان کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتے تھے اور ان کی پہلے سے موجود ویڈیوز کو ان کی دوستوں اور کلاس فیلوز کو بھیج دیتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان میں سے ایک کی تعلیم ایف اے ہے جبکہ دوسرا گریجویشن کا طالب علم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ابھی تک ملزمان کی جانب سے بلیک میلنگ کے ذریعے رقم لینے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے تاہم انہوں نے دوران تفتیش اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ غیر ملکی لڑکیوں سے دوستی کر کے ان سے شادی کرنا چاہتے تھے تاکہ بیرون ملک جا سکیں۔
ارشد رضوی کہ مطابق ’ان کی چیٹ اور موبائلز سے پتہ چلا ہے کہ صرف یہی ایک لڑکی نہیں تھی۔ اس میں کئی لڑکے اور لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ انہوں نے اس طرح کی چیٹ کی ہوئی تھی اور ان کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز اس چیٹ میں انہوں نے منگوائی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ فحش ویڈیوز اور تصاویر منگوانے کے عادی تھے اور ان کی ایسی سرگرمیوں کے جو دیگر مقاصد ہیں وہ حتمی طور پر تفتیش کے دوران سامنے آجائیں گے۔
ملزمان تک کیسے پہنچا گیا؟
ان ملزمان کا سراغ لگانے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 2021 میں جب امریکی لڑکی نے خودکشی کی تو وہاں کی قانون نافذ کرنے والے ایجنسی نے اس حوالے سے تفتیش کی کہ ان کی موت کی وجہ کیا تھی۔
’ اس میں انہوں نے ان کے موبائل کا بھی تجزیہ کیا، ان کی دوستوں کے ساتھ بات چیت کو بھی چیک کیا جس سے پتہ چلا کہ اس لڑکی کو مسلسل بلیک میل اور ہراساں کیا جا رہا تھا اور ان کی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر ان کے مختلف دوستوں کو بھیجی جا رہی تھیں جس سے تنگ آ کر شاید انہوں نے خودکشی کر لی۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب یہ حقائق سامنے آئے تو امریکہ کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے مزید تفتیش کر کے سراغ لگایا کہ یہ ساری سرگرمیاں ایک فیس بک پروفائل کے ذریعے ہو رہی ہیں جو پاکستان سے استعمال ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انہوں نے ہمیں یہ چیز بھیجی کیونکہ انہیں بندوں کا علم نہیں تھا اور یہ لکھا تھا کہ یہ نامعلوم لوگ ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے تکنیکی وسائل استعمال کیے، جن میں ریکارڈ لینا تھا، تجزیہ کیا، اچھے طریقے سے پتہ کروایا، بڑی مہارت سے لوگوں کو سکروٹنائز کیا۔ اس کے بعد پھر ہم اس جگہ پر پہنچے کہ دو لوگ جو ہیں بنیادی طور پر وہ اس ساری چیز کے پیچھے ہیں۔‘
’پھر ہم ان تک پہنچے اور دو لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے موبائل فون، سمز اور مختلف لرکیوں کے ساتھ چیت وغیرہ ریکور کی۔‘
ارشد رضوی کے مطابق فیس بک آئی ڈی ملزمان میں سے ایک لڑکے ارسلان کے نام پر بنی ہوئی تھی جس پر ان کی تصویر بھی لگی ہوئی تھی لیکن یہ دونو ں اس فیس بک آئی ڈی کو استعمال کرتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تاحال ان ملزمان کی حوالگی کے لیے امریکی سفارتخانے کی جانب سے ایف آئی اے کو کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
’ہم نے ایف آئی آر درج کی ہے جو سیکشن 20، 21، 22 اور سیکشن 24 پری وینشن آف الیکٹرنک کرائمز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کی گئی ہے تو ہم اس پر اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘