عمران خان کی بھرپور جنگ جاری ہے

جلسے سے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی سے تنگ لوگ بھی عمران خان کو بظاہر اپنا مخلص سمجھتے ہیں، لیکن تحریک عدم اعتماد کا معاملہ تو سڑکوں پر طے نہیں ہو گا۔

27 مارچ 2022 کو ہونے والے جلسے سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی (اے ایف پی)

اسلام آباد کے تاریخی جلسے میں اتوار کی رات عمران خان کے بلانے پر کارکنان امنڈ آئے جن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم  نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ مجھے نکالنے کی ایک بین الاقوامی سازش تیار کی گئی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری حکومت کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا گیا ہے۔ انہوں نے ایک کاغذ جیب سے نکالا ضرور لیکن اس لیے نہیں پڑھا کیوں کہ بقول ان کے یہ معاملہ بہت حساس ہے، البتہ کہا کہ اسے ’آف دا ریکارڈ‘ دکھایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سازش میں پی پی پی اور ن لیگ کے رہنما ملوث ہیں اور نواز شریف لندن میں بیٹھ کر کچھ لوگوں سے مل رہے ہیں اور سازشیں تیار کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے کے جلسوں میں اور باتیں کی گئی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ پارٹی میں واپس نہ آئے تو ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا، آپ بچوں کو سکول میں طعنے دیے جائیں گے، آپ کاسماجی بائیکاٹ کیا جائے گا، کوئی بھی آپ کے بچوں سے شادی نہیں کرے گا اور اگر آپ پارٹی میں واپس آ گئے تو آپ کو سرزنش نہیں کی جائے گی کیوں کہ میں آپ کے والد کی طرح ہوں اور آپ میرے بچوں کی طرح ہیں۔

یہ وہ پیغام ہے جو وزیراعظم نے پہلے جلسے میں اپنے منحرف ارکانِ پارلیمان کو دیا تھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ ارکان ان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی ٹھان چکے ہیں۔

اپوزیشن کے آئینی چیلنج یعنی تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم کی تنقید سب سے زیادہ اپنے ارکان کےخلاف تھی جو ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، لیکن وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور اب اسلام آباد میں ایک جمِ غفیر کے سامنے پی ایم نے حزبِ اختلاف کو ایک سازش کا حصہ بنے کا بھی دعویٰ کر دیا۔

آٹھ مارچ کو پاکستان کی بڑی اپوزیشن جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے اپنا آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی۔ نومبر 2020 سے اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار عدم اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ کرنے کے بعد یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی دوران وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان پاکستان کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری کے معاملے پر اختلافات سامنے آئے۔

یہ معاملہ ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے صرف دو دن بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بیان دیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا جہاں فوجی قیادت بظاہر غیر جانبدار نظر آتی ہے۔

اس کے بعد وزیراعظم نے ایک جلسے میں کہا کہ ’نیوٹرل‘ صرف جانور ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ اپنے لوگوں کوحکم دیتا ہے کہ وہ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہوں اور برائی کی سرگرمی سے مخالفت کریں۔‘

حکومت اور اس کی چار اتحادی جماعتوں کے پاس 179 سیٹیں ہیں اور 162 اپوزیشن کے پاس 162 ووٹ ہیں، لیکن تعداد بدل رہی ہے کہ اتحادی ابھی تک وزیر اعظم کو ووٹ دینے کا عہد نہیں کر رہے۔ ملاقاتیں جاری ہیں کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ان کی حمایت کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کا زور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اور حکومت کے اتحادیوں کے ذریعے تعداد اکٹھا کرنے پر رہا ہے، اور اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تلاش میں ہے کہ آئینی آرٹیکل پارٹی رہنما کے خلاف ووٹ ڈالنے یا گننے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں، حکومت نے جارحانہ کثیرالجہتی پالیسی اپنائی ہے۔

عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم ذاتی طور پر درج ذیل سات نکاتی ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔

 1 اپوزیشن غیر اخلاقی ذرائع استعمال کر کے حکومت کو الٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کا الزام ہے کہ حزبِ اختلاف رشوت دے کر پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کو توڑنے کے کی کوشش کر رہی ہے۔

2 پاکستان کے عوام سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہیں۔

ماضی میں زیادہ تر لالچ کی وجہ سے سیاسی رخ بدلتے رہے اور اس بار عوام ایسی سائیڈ سوئچنگ کو فعال طور پر مسترد کر دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض منحرف ارکان کے گھروں کے باہر سمیت کئی شہروں میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دینے کے ان کے متوقع فیصلے کی مذمت کی۔ اس احتجاج میں سندھ ہاؤس، جہاں منحرف اراکین کو رکھا گیا تھا، وہاں ایک مشتعل ہجوم کا پرتشدد حملہ بھی شامل ہے جس کی قیادت پی ٹی آئی کے دو پارلیمنٹیرینز کر رہے تھے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف بولنے والے پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مین گیٹ کو توڑ دیا۔ غصےاور طاقت کا اس طرح کا مظاہرہ ممکنہ منحرف افراد کو ڈرانے کے لیے یہ ظاہر کرے گا کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال بھی ممکن ہے۔

3 منحرف ارکان کے خلاف یہ سرزنش ان کے سماجی بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آئے گی جس کا اظہار پی ایم نے اپنے آخری جلسہ عام میں کیا تھا۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ پاکستانی اب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان کے سیاسی سیٹ اپ کو معمول کے مطابق جوڑ توڑ اور غیرمستحکم کرنے کے لیے کی جانے والی بیک ڈور چالوں سے تنگ آ چکے ہیں، لیکن اس عدم اعتماد تحریک کا فیصلہ پارلیمنٹ میں نمبروں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

4 اپوزیشن کا حکومت گرانے کا منصوبہ آئینی طور پر ناقص ہے اور تشریح کے لیے سپریم کورٹ جانا پی ٹی آئی سے انحراف کو روک دے گا۔

5 حکومت کی یہ یہ دلیل ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے ایک غلط کام کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ یہ بنیادی طور پر فوج کے اعلان کردہ غیر جانبدارانہ موقف پرتنقید ہے۔

6 حکومتی ارکان دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کی وجہ سے کچھ غیر ملکی طاقتیں اپوزیشن کےساتھ مل کر حکومت کو ہٹانے کی سازش کر رہی ہیں۔ اپوزیشن رہنما کے ناموں سے ان کو غیر ملکی کٹھ پتلی، چور، ڈاکو وغیرہ کہتے ہیں۔

7 آخر میں مذہب اور خاص طور پر قرآنی تعلیمات کو مذہب کے استعمال کی دعوت دے کر جیسا کہ وزیراعظم اپنی تقاریر میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ اپنے لوگوں کو فعال طور پر غلط کاموں کو نہ کہنے کی دعوت دیتا ہے۔

اپنے آخری جلسے کے بعد عمران خان امید کر رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی سازش اور اخلاقی غم و غصے کو دہرانے کے ذریعے اپنی پارٹی کے اراکین کو پی ٹی آئی میں رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور اس طرح اپنے اتحادیوں کو بھی مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے پاس نہ جائیں۔

اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی ہے یعنی صرف ایک سال، لیکن اپوزیشن حکومت کے اتحادی اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے پاس عمران خان کی برطرفی کے لیے سیاسی وجوہات ہیں۔

عمران خان کی طرف سے کیے گئے سیاسی سمجھوتوں کے بارے میں بھی ان کی اپنی کہانیاں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اصولوں کی کہانی کم ہے اور سازشوں، کچھ لو اور کچھ دو اورسمجھوتوں کی کہانی زیادہ رہی ہے۔

 کل کے جلسے کے بعد عوام میں عمران خان کی حمایت برقرار نظر آئی ہے۔ مہنگائی سے تنگ لوگ عمران خان کو بظاہر ملک اور لوگوں کا مخلص تو سمجھتے ہیں، لیکن تحریک عدم اعتماد کا معاملہ تو اسمبلی میں اور سڑکوں پر طے نہیں ہو گا۔

 بہر حال عمران خان کی اگلے الیکشن کی بھرپور تیاری شروع ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ