اپنی سیاسی ناکامیاں یا بین الاقوامی سازش؟

خارجہ پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں کہلایا جا سکتا۔

وزیراعظم عمران خان اور تحریکِ انصاف کے دوسرے رہنما 27 مارچ 2022 کو پریڈ گراؤنڈ میں سٹیج پر موجود ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

 

پاکستان میں حکومتوں کی ناکامیوں میں بیرونی سازشوں کا ہاتھ تلاش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کی برطرفی میں امریکی ہاتھ ہونے کا الزام لگا۔ یہ الزامات لگاتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ اس وقت کی حکومتیں اپنی غیر مقبولیت کی انتہا پر تھیں۔ اس غیر مقبولیت کی مختلف وجوہات تھیں، جن کی ذمہ دار یہ حکومتیں خود تھیں۔

ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے سیاسی عدم استحکام عروج پر تھا۔ وزرائے اعظم قتل ہوئے یا مسلسل برطرف کیے جاتے رہے۔ اس سیاسی عدم استحکام میں سیاست دان آئین پر آزادی کے دس سال بعد متفق ہو سکے۔ اس عرصے میں غیر جمہوری طاقتوں نے ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور جمہوری قوتوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اپنے اقتدار کے اختتام تک وزیراعظم بھٹو عوام کی ایک بڑی تعداد کی نظر میں غیر مقبول اور ناپسندیدہ حکمران بن چکے تھے۔ وہ یقیناً ذہین اور قابل سیاستدان تھے مگر ان کے دورِ اقتدار میں ان کے غیر جمہوری اقدامات نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔

بعض رہنماؤں پر غداری کے مقدمات چلا کر انہیں نظربند کر دیا گیا اور حزب اختلاف پر مشتمل صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی حکومتوں کو بھی برطرف کردیا گیا۔ بھٹو حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے کافی اقدامات کیے مگر بڑی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے تمام دروازے بند کر دیے، جس سے معاشی خوشحالی کا راستہ رک گیا جو عوام میں واضح بے چینی کا سبب بنا۔

ان عوامل کے علاوہ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش نے حکومت کو مزید کمزور کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سب حکومتی مشکلات کو ایک طالع آزما جنرل اپنے ذاتی مفاد کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا تھا۔ بھٹو نے اپنی ڈگمگاتی اور ڈھولتی حکومت کو بچانے کے لیے حزب اختلاف سے بات چیت کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں پر اپنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا الزام بھی لگایا۔

ان کا خاص اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔ وہ یہ الزام لگاتے ہوئے بھول گئے کہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ وہ اپنے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے حزب مخالف کو ناراض کرکے ان کے خلاف ایک بڑا اتحاد بنانے پر مائل کرچکے تھے کیونکہ حزب اختلاف کو بھٹو کی موجودگی میں اپنا مستقبل خطرے میں محسوس ہونے لگا تھا۔

ان سب سیاسی مشکلات کی وجہ غیر جمہوری حکومتی رویہ تھا مگر بھٹو نے ان مسائل اور عوامی عدم اطمینان کی وجہ امریکہ کو قرار دیا اور عوام کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔

ہم 2022 میں اس وقت وہی 1977 کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت اپنی ناکامیوں اور سیاسی ماحول میں ہیجان پیدا کرنے کے بعد اپنے خلاف عوامی احتجاج اور حزب اختلاف کے اتحاد میں عالمی سازش کو ڈھونڈ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی ایک بڑی آبادی کا جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ افراط زر نے درمیانے طبقے کو غربت کی لکیر کے قریب پہنچا دیا ہے۔ حکمران جماعت کے رہنماؤں کا بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کی بجائے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کبھی انہیں روٹیاں کم کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور کبھی چینی کے کم دانے استعمال کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، اور کبھی بڑھتی ہوئی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے سڑکوں پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد سے موازنہ کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دوران میڈیا کی زبان بندی کے لیے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور صرف حزب مخالف کے رہنماؤں کو احتساب کے ایک ناقابل اعتبار عمل سے گزارا جا رہا ہے۔ کیونکہ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں عوام کو کوئی اچھی معاشی خبر نہیں ملی ہے اور بظاہر حکومت میں ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی دکھائی نہیں دے رہی، جس کی وجہ سے ایک تحریک حکومت کے خلاف شروع ہوچکی ہے۔ حکومتی پارٹی کے اراکین اور اتحادی جماعتیں بھی حکومت سے نالاں ہو چکے ہیں تو بین الاقوامی سازش کا سہارا لینا ایک پرانا اور آزمودہ فارمولا ہے۔

وزیراعظم نے اپنے اسلام آباد کے جلسے میں ایک بین الاقوامی سازش کا انکشاف کیا مگر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان کے کس قدم کی وجہ سے یہ سازش بُنی گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تو وہ امریکہ یاترا سے واپسی کے بعد ایسا محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو تو ایسا یکایک کیا ہوا کہ امریکہ ان کے خلاف ہوگیا؟

کیا امریکہ نے ہماری حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ناقص معاشی پالیسیاں چلانے پر مجبور کیا تھا؟ کیا سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو ان کی کمزور کارکردگی پر امریکہ نے وزارت سے فارغ کیا؟ کیا امریکہ نے ہمیں مجبور کیا کہ روپے کی قدر کو جان بوجھ کر گرایا جائے اور شرح سود کو بڑھا کر معاشی ترقی کا راستہ روکا جائے؟ کیا امریکہ نے حکومت کو مجبور کیا کہ حزب اختلاف کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اور میڈیا پر بےجا پابندیاں لگائی جائیں؟ کیا امریکہ نے حکومت کو مجبور کیا تھا کہ ایف آئی اے اور اس جیسی ایجنسیوں کو حکومت مخالفین کے لیے استعمال کیا جائے؟

وزیراعظم کو اپنی گورننس کی ناکامیوں اور اس سے پیدا شدہ مشکلات کے لیے دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

خارجہ پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں کہلایا جا سکتا۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ