’ملکہ سے بھی امیر‘ برطانوی وزیر کی بھارتی نژاد اہلیہ کون ہیں؟

مورتی کی دولت اب انفوسس میں ان کے 0.91 فیصد حصص سے آتی ہے جس کی مالیت تقریباً 69 کروڑ پاؤنڈز ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملکہ الزبتھ دوم سے بھی زیادہ دولت مند ہیں۔

برطانوی کے قومی خزانے کے چانسلر رشی سونک نو فروری 2022 کو اپنی اہلیہ اکشتا مورتی کے ہمراہ برٹش میوزیم لندن میں موجود ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

اپریل 1980 میں پیدائش کے چند ماہ بعد ہی اکشتا مورتی کو کام کو فوقیت دینے والے والدین نے اپنے نئے خاندان کی بہتر زندگی کی خاطر سینکڑوں میل دور ممبئی میں دادا دادی کے پاس دیکھ بھال کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

’لیگیسی:لیٹرز فرام ایمیننٹ پیرنٹس ٹو دیئر ڈاٹرز‘ نامی کتاب میں شائع ہونے والے اکشتا کو لکھے ایک خط میں این آر نارایانا مورتی نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اور ان کی اہلیہ سودھا نے اپنی پہلی اولاد کو پیچھے چھوڑنے کا ’مشکل فیصلہ‘ کیا کیوں کہ وہ اپنے انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کیریئر میں قدم جمانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

ناریانا نے جنہیں اُس وقت ایک پروگرامر کے طور پر ساڑھے تین ارب پاؤنڈ مالیت کی آئی ٹی سروسز کمپنی ’انفوسس‘ کا آغاز کرنا تھا کہا کہ وہ ایک علاقائی ہوائی اڈے پر لینڈ کرتے جہاں وہ اپنی چھوٹی بچی کے ساتھ ڈرائیو اور وقت گزارنے کے لیے ہر ویک اینڈ پر ایک گاڑی کرائے پر حاصل کرتے تھے۔

انہوں نے لکھا: ’ایسا کرنا بہت مہنگا تھا لیکن میں آپ کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔‘

ناریانا اکشتا اور تین سال چھوٹے ان کے بھائی روہن کی پرورش کا سہرا اپنی اپنی اہلیہ سودھا کو دیتے ہوئے کہتے ہیں وہ ’اچھے بچے‘ ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سودھا جو بھارت کی اُس وقت کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی کے لیے کام کرنے والی پہلی خاتون انجینیئر تھیں، اب ایک مخیر شخصیت، انسان دوست اور صحت عامہ کے لیے کام کرتی ہیں۔

کتاب کے مطابق جب اکشتا جب بڑی ہو رہی تھیں تو وہ بالآخر ممبئی میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگیں۔ اس مرحلے پر ان کے والدین نے انہیں مطالعے، پڑھنے اور بحث و مباحثے کی جانب راغب کرنے کی پوری کوشش کی اور اس مقصد کے لیے گھر سے ٹی وی بھی ہٹا دیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ جب انفوسس کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا اور ان کا خاندان امیر تر ہوتا گیا تو بھی اکشتا نے عام طور پر بھارتی اشرافیہ کی طرح نجی گاڑی کے بجائے ’باقاعدہ آٹورکشا‘ میں سکول جانا جاری رکھا۔

انہوں نے لاس اینجلس میں فیشن آف ڈیزائن اور مرچنڈائزنگ کی ڈگری سے پہلے کیلیفورنیا کے نجی لبرل کلیرمونٹ میک کینا کالج سے معاشیات اور فرانسیسی زبان کی تعلیم حاصل کی اور آخر کار سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے مکمل کیا۔

یہ وہی وقت تھا جب ان کی ملاقات ساؤتھ ہیمپٹن میں پیدا ہونے والے رشی سونک سے ہوئی جو معتبر فل برائٹ سکالرشپ پر وہاں پڑھنے گئے تھے۔

چار سال بعد اس جوڑے نے بنگلور میں شادی کرلی۔ یہ دو روز تک جاری رہنے والی شادی کی شاندار تقریب تھی جس میں بھارتی کرکٹ لیجنڈ انیل کمبلے جیسی کئی معروف شخصیات نے شرکت کی تھی۔

ناریانا نے لکھا کہ وہ ابتدا میں اکشتا کے اس رشتے سے ’اداس اور جیلس‘ محسوس کر رہے تھے لیکن جب وہ ان کے ہونے والے شوہر سے ملے تو ان کے جذبات بدل گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے لکھا: ’میں نے ان میں وہ تمام خوبیاں پائیں جس کے بارے میں آپ نے ذکر کیا تھا۔ وہ شاندار، خوبصورت اور سب سے بڑھ کر ایماندار شخص ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ آپ نے اپنا دل کیوں چوری ہونے دیا۔‘

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد اکشتا نے 2007 میں اپنا ذاتی فیشن برانڈ ’اکشتا ڈیزائنز‘ لانچ کرنے سے پہلے سان فرانسسکو میں ڈچ ٹیکنالوجی انکیوبیٹر فنڈ میں بطور مارکیٹنگ ڈائریکٹر کام کیا تھا۔

اس کے دو سال بعد انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ وہ ’اس فیشن کے کاروبار کے علاوہ کسی اور چیز میں مصروف ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔‘ لیکن دی گارڈین کے مطابق تین سالوں کے اندر یہ برانڈ ناکام ہوگیا۔

مورتی کی دولت اب انفوسس میں ان کے 0.91 فیصد حصص سے آتی ہے جس کی مالیت تقریباً 69 کروڑ پاؤنڈز ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملکہ الزبتھ دوم سے بھی زیادہ دولت مند ہیں۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اکشتا اپنے چانسلر شوہر کے ساتھ لندن میں قائم ’کیٹاماران وینچرز یو کے‘ کمپنی کی بھی مالکن ہیں۔

رشی سونک نے 2015 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے قبل اپنے حصص اپنی اہلیہ کو منتقل کر دیے تھے۔

42  سالہ اکشتا کے کم از کم چھ دیگر کمپنیز میں بھی حصص ہیں جن میں ’جیمی اولیورز پزیریا‘، بھارت میں ’وینڈیز‘ ریستوران اور مردوں کے ملبوسات کا برانڈ ’نیو اینڈ لنگ ووڈ‘ شامل ہیں۔ ’نیو اینڈ لنگ ووڈ‘ ایٹون کالج کے ٹیل کوٹ اور سلک ڈریسنگ گاؤن بھی تیار کرتا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا