کوہلو: کوہ جاندران کے جنگل میں لگی آگ آٹھ دن بعد بجھا دی گئی

بلوچستان کے ضلع کوہلو میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ 30 مارچ کو بچوں کی غلطی سے لگنے والی آگ کو رضاکارانہ کوششیوں سے بجھایا گیا جبکہ محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ آگ اس کے عملے نے بجھائی۔

میر اسماعیل مری کے مطابق ہوا تیز ہونے کے باعث یہ آگ پھیل گئی اور بڑے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا (تصویر: فضل مری)

بلوچستان کے ضلع کوہلو میں کوہ جاندران کے جنگلات میں لگی آگ آٹھ دن کے بعد آخر کار بجھا دی گئی ہے۔  

علاقے میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کی غلطی سے 30 مارچ کو لگنے والی آگ ان کی رضاکارانہ کوششوں سے بجھائی گئی جبکہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کم وسائل کے باوجود آگ بجھائی۔

آگ سے متاثرہ پہاڑ کے علاقے کی زمین کے مالک میر اسماعیل مری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 30 مارچ کو دو بچے بھیڑ بکریوں کو چرانے کوہلو کے کوہ جاندران پر گئے تھے۔ ایک سانپ دیکھ کر انہوں اس کا پیچھا کیا اور جب سانپ ایک غار میں جا کر چھپ گیا تو بچوں نے اس باہر نکالنے کے لیے وہاں آگ لگائی۔

میر اسماعیل مری کے مطابق ہوا تیز ہونے کے باعث یہ آگ پھیل گئی اور بڑے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی غلطی سے آگ لگی تاہم ان کے بیٹے نے ان کے خلاف لیویز تھانے میں مقدمہ درج کروا دیا ہے، جس میں مسنڈو اور گلا نامی شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب غازی خان ولد اسماعیل مری نے لیویز تھانہ کوہلو میں مقدمہ درج کروایا جس میں مسنڈو اور گلا نامی شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

مقدمہ میں کہا گیا مزکورہ نامزد افراد نے کوہ جاندران میں ان کی ملکیت والی پہاڑی علاقے میں آگ لگائی تھی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ آگ لگنے کے تین دن کے بعد ڈپٹی کمشنر نے لیویز اہلکار بھیجے جو معائنہ کرکے واپس آگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگلات والے بھی ابتدا میں آگ کی شدت زیادہ ہونے کے باعث کچھ نہ کرسکے۔

اسماعیل مری نے بتایا کہ آگ نے زیتون، شنے اور دوسرے پرانے درختوں کو نقصان پہنچایا۔

سول سوسائٹی کوہلو کے فضل مری، جنہوں نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا، کے مطابق کوہ جاندران ایک بلند پہاڑی ہے اور یہاں سے اوجی ڈی سی ایل نے تیل اور گیس بھی دریافت کی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابتدا کے دنوں میں جب 30 مارچ کو یہ آگ لگی تو محکمہ جنگلات اور لیویز کے اہلکار آگ بجھانے کی کوشش میں ناکام رہے، کیونکہ اس کی شدت بہت زیادہ تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب زیادہ دن ہوگئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ وہاں جاکر کام کریں گے۔

فضل نے بتایا انہوں نے چار اپریل کو 11 رضاکار ساتھیوں کے ہمراہ کوہ جاندران جانے کا فیصلہ کیا اور رات کے 10 بجے کے قریب جب وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آگ پھیلتی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے آگ کا راستہ روکنے کے لیے پتھر اور مٹی کا استعمال کیا۔

فضل کے بقول: مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسی آگ نہیں دیکھی۔ یہاں پر 20 سے 25 سال پرانے درخت موجود تھے، جن کو آگ نے نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ اندازے کے مطابق پہاڑی کے اوپر تقریباً 20 سے 25 کلو میٹر کے حصے میں آگ سے گھاس اور درختوں کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم اصل صورت حال سروے کے بعد سامنے آسکتی ہے۔

دوسری جانب رینج فارسٹ آفیسر عبدالصمد زرکون نے بتایا کہ آگ محکمہ جنگلات کے عملے نے بجھائی جس کے لیے انہوں نے وسائل کے باوجود کام کیا۔

عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آگ کو بجھانے میں زیادہ وقت اس لیے لگا کیونکہ انہیں مقامی لوگوں کا تعاون حاصل نہ ہوا، ’لیکن اب ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اس نے یہ کام کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ آگ بجھانے کے لیے ہمارے پاس کوئی آلات موجود نہیں بلکہ ہم نے درخت کی شاخوں کی مدد سے آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔

ان کے مطابق چونکہ یہ پہاڑی علاقہ اور اونچائی پر واقع ہے، اس لیے وہاں پر پانی لے جانا ممکن نہیں تھا۔

عبدالصمد کے مطابق: ہم نے کوئی دو سے ڈھائی گھنٹے پیدل سفر کیا اور آگ کی جگہ پہنچے۔ لیکن اس دوران ہمارے کام کرنے والے عملے کو کسی نے پانی تک فراہم نہیں کیا۔

عبدالصد کا کہنا تھا کہ آگ کی شدت اور پھیلاؤ کے باعث قدرتی درختوں اور گھاس وغیرہ کا بہت نقصان ہوا ہے، جس کا اصل تعین سروے کے بعد بھی ہوسکے گا۔

یاد رہے کہ رواں سال فروری میں بھی بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں آگ لگی تھی، جس میں محکمہ جنگلات کے حکام نے بتایا کہ یہ خیبر پختونخوا کے حصے میں تھی۔

شیرانی، موسیٰ خیل اور اب کوہلو کے پہاڑی سلسلے کی جنگلات میں آگ لگنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان