پنجاب اسمبلی: ’ایک لمحہ جب لگا کہ انتخاب نہیں ہوتا آج‘

خواتین اراکین جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، نے لوٹے سپیکر کی ٹیبل پر رکھے اور خود وہاں بیٹھ کر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس جھڑپ کے بعد ایوان میں ناامیدی سی پھیل گئی اور ماحول غیر یقینی ہوگیا۔

پنجاب اسمبلی کی 16 اپریل 2022 کو لی گئی تصویر (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرنے کے لیے بلایاگیا اجلاس کئی گھنٹے بعد پولیس کی بھاری نفری کی مداخلت پر ممکن ہوسکا۔

ساڑھے گیارہ سے شام پانچ بجے تک اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی اس دوران سپیکر پنجاب اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی بھی زخمی ہوگئے، ڈپٹی سپیکر کو بھی زدو کوب کیاگیا، مگر جب شام پانچ بجے کے قریب حکومتی اراکین بے بس ہوگئے تو انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور چلتے بنے۔

ہوا یوں کہ آج بروز ہفتہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قائد ایوان کا انتخاب ہونا تھا تو اراکین اسمبلی کی طرح میڈیا نےبھی معمول کے اجلاس سے زیادہ کوریج کی تیاریاں کیں۔

 ہم صبح ساڑھے دس بجے ہی پنجاب اسمبلی پہنچنے کے لیےنکلے جب کہ اجلاس ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے تھا۔

جب جیل روڑ سے مال روڑ جانے کےلیے چائنہ چوک کراس کیا توپولیس نے رکاوٹیں لگا کر روڈ بلاک کر رکھی تھی۔

گاڑی موڑ کر جب دوسری طرف ون فائیو بلڈنگ کی طرف گئے تو وہاں سے بھی چیئرنگ کراس جانے والا راستہ بند تھا لہذا دور ہی گاڑی کھڑی کر کے پیدل اسمبلی پہنچے۔

مال روڑ پر گورنر ہاؤس چوک سے ریگل چوک تک رکاوٹیں لگا کر بند کی گئی تھیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جب کہ معمول کے اجلاسوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب اسمبلی  گیٹ پر پہنچے تووہاں بھی سخت سکیورٹی پولیس اوررینجر اہلکاروں کے حوالے تھی۔ خیر کارڈ دکھا کر اندر داخل ہوئے تو وہاں ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں جو اراکین اسمبلی کی تھیں کیونکہ انہیں گاڑیاں احاطہ کے اندر تک لانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اراکین اور ان کے حمایتیوں کی آمدکا سلسلہ بھی جاری تھا۔

ہم پریس گیلری کی طرف بڑھے تو اسی وقت پہنچنے والے صحافی دوستوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ ہر ایک یہی پوچھ رہاتھاکہ کیا آج اجلاس مکمل ہوگا اور اس میں قائد ایوان کا انتخاب ہوجائے گا یا پھر کوئی نیا حربہ اپنا کر اجلاس روکاجائے گا؟

بعض نے کہاکہ عدالتی حکم ہے، انتظامات مکمل ہیں، آج ہر صورت ہونا ہے جب کہ متعدد سینئر صحافیوں کا خیال تھا کہ چوہدری صاحب نمبر پورے نہیں کر سکے وہ کبھی اجلاس میں وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہونے دیں گے۔

خیر اس گپ شپ کے ساتھ میڈیا گیلری میں داخل ہوئے اور سلام دعا کے بعد بیٹھ گئے۔ کچھ دیر باتیں کرتے گزر گئی،  اچانک ایوان میں اراکین کی کافی بڑی تعداد پہنچ گئی لیکن صورتحال اتنی سنجیدہ دکھائی نہ دی۔

ای دم گھنٹیاں بجنا بند ہوئیں تو ڈپٹی سپیکر دوست مزاری اپنے چیمبر سے باہر اپنے ڈائس پر آگئے۔ ہال میں جھانکا تو پی ٹی آئی اراکین خاص طور پر خواتین کی بڑی تعداد نے لوٹے لہرانا شروع کر دیے اور نعرے بازی کرنے لگے۔

آگے کی نشستوں پر دھیان گیا تو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور چوہدری پرویز الٰہی دیگر اراکین کے ساتھ سر جوڑ کربیٹھے مشاورت میں مصروف تھے مگر حمزہ شہباز ایوان کی بجائے اپوزیشن چیمبر میں موجود تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی کے خواتین اور مرد اراکین سپیکر ڈائس پر چلے گئے اور دور سے ہی ان پر لوٹے پھینکنےلگے۔

اسمبلی سکیورٹی نے انہیں قریب آنے سے روکا لیکن وہ دھکے دے کر سپیکر پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کو دھکے دیے اور بال نوچے گئے تو انہیں دوبارہ چیمبر جانا پڑا۔

اس کے بعد پی ٹی آئی اور ق لیگی اراکین کی نعرے بازی لوٹے لہرانے سے ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ اپوزیشن بینچوں پرموجود متحدہ اپوزیشن اراکین اور منحرف اراکین خاموشی سے بیٹھے رہے۔

اس طرف سے کوئی نعروں کا جواب دینے لگتا تو کوئی دوسرا رکن اسے منع کردیتا۔

خواتین اراکین جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، نے لوٹے سپیکر کی ٹیبل پر رکھے اور خود وہاں بیٹھ کر مکمل قبضہ کر لیا۔

اس جھڑپ کے بعد ایوان میں ناامیدی سی پھیل گئی اور ماحول غیر یقینی ہوگیا۔ روزے کی وجہ سے اپوزیشن کے کئی اراکین پچھلی نشستوں پر سوکر وقت گزارنے پر مجبور دکھائی دیے۔

صحافی بھی اس صورتحال کی ویڈیو اور معلومات وٹس ایپ کے ذریعے یا آڈیو بیپر کے لیے بار بار گیلری سے باہر جانےاور آنے لگے کیونکہ گیلری میں جیمر لگا کر سگنل بند ہوتے ہیں۔

کچھ دیر کی کوریج کے بعد سب دوبارہ نشستوں پر بیٹھ گئے اور سپیکر ڈائس کے ارد گرد کا ایریا پی ٹی آئی خواتین نےمکمل قبضہ میں کیے رکھا۔

دو گھنٹے کے بعد اطلاع ملی کہ ڈپٹی سپیکر نے آئی جی پنجاب کو خط لکھ کر مرداور خواتین اہلکاروں پر مشتمل نفری طلب کر لی ہے اور اعلان کیاکہ وہ آج ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے انتخاب ضرور کرائیں گے۔

دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں نفری سول کپڑوں میں ایوان کے اندر آگئی ان کے داخل ہوتے ہی حکومتی اراکین انکے گلے پڑ گئے اور ان پر دھاوا بول دیا کئی اہلکاروں کوایوان سے نکال دیا۔

مگر فوری چار پانچ سو اہلکاروں کی نفری نے دوبارہ داخل ہوکر اراکین کو قابو کرنے کی کوشش کی اور انہیں ایوان سےنکالنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی دوران چوہدری پرویز الہٰی بھی دھکم پیل میں زخمی ہوگئے جب کہ بھگدڑ میں حکومتی چیمبر سے غیر متعلقہ افراد ایوان میں داخل ہوئے تو اپوزیشن اراکین اور پولیس نے انہیں زدوکوب کیا۔ پولیس نے متعدد اراکین کو حراست میں کے کر ایوان سے نکال دیا۔

اس ساری کشیدگی کے باوجود خواتین اراکین نے سپیکرڈائس خالی نہ کیا۔

ایک لمحے کو ایسے محسوس ہوا کہ شاید حالات اب نہیں سنبھل سکیں گے اور انتخاب تو آج کسی صورت ممکن نہیں لگتے تھے۔

پھر آفیشل گیلری کھلی جسےچاروں اطراف سے پولیس اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا اور وہاں سے ڈپٹی سپیکر نمودار ہوئے۔ متحدہ اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز علیم خان اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اپنی نشست پر آگئے۔

روایت کے مطابق تلاوت اور نعت خوانی کے بعد ڈپٹی سپیکر نے سکیورٹی کے حصار میں کھڑے ہوکر  لاؤڈ سپیکر پر  انتخاب کا عمل شروع کرانے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد حکومتی اراکین کی طرف بے بسی دکھائی دی اور وہ صرف شور شرابے اور نعرے بازی تک محدود ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آفیشل گیلری سے کارروائی شروع ہوئی تو اسمبلی کا عملہ بھی ساتھ ہی بیٹھ کر کارروائی سے متعلق فرائض دینے لگا۔

اسی دوران وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سپیکر چوہدری پرویز الہی اور اکثر حکومتی اراکین بائیکاٹ کر کے  ایوان سے روانہ ہوگئے۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی شروع کر دی مگر حکومتی اراکین پھر باہر ہی چلے گئے۔

ڈپٹی سپیکر کے حکم پر فوری گنتی کا عمل شروع ہوا تو اپوزیشن کی جانب سے اراکین کو حاضری لگا کر باہر نکلنے کی ہدایت دی گئی شام سوا پانچ بجے یہ عمل شروع ہوا تو اراکین نے فوری لائنیں بنا کر گنتی کرائی۔

ایک گھنٹے سے زائد وقت میں گنتی مکمل ہوئی اور افطاری سے پہلے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے نتائج کا اعلان کیا کہ حمزہ شہباز 197ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب جب کہ چوہدری پرویز الہی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔

اس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے انہیں اپوزیشن بینچوں سے حکومتی بینچوں پر آنے کی دعوت دی، یوں اپوزیشن حکومت اورحکومت اپوزیشن میں تبدیل ہوگئی۔

اس ساری صورتحال میں سوالات اٹھے کہ اراکین کو لوٹے اندر لانے کی اجازت کس نے دی؟ ڈپٹی سپیکر پر حملہ سوچاسمجھا منصوبہ تھا یا اچانک کیا گیا؟

ان سوالوں کے ساتھ ڈپٹی سپیکر نے قرار دیا کہ ساری صورتحال کے باوجود وہ اراکین کے تعاون کرنے پر خوش ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان