دادو میں آتشزدگی: وزیراعلیٰ کا بروقت امداد نہ کرنے کا اعتراف

دادو کی تحصیل میہڑ کے گاؤں فیض محمد دریانی چانڈیو میں تین روز قبل آتشزدگی سے نو افراد جھلس کر ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

دادو کے گاؤں فیض محمد دریانی چانڈیو میں تین روز قبل آتشزدگی سے نو افراد جھلس کر ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے (فوٹو: ڈی ایم جوکھیو فیس بک اکاؤنٹ)

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جمعرات کو اعتراف کیا ہے کہ ضلع دادو کے نواحی گاؤں میں تین روز قبل لگنے والی آتشزدگی کے واقعے پر صوبائی حکومت نے ردعمل میں تاخیر کی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں مراد علی شاہ نے مزید بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے بعد سات دن میں رپورٹ طلب کرلی گئی ہے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوگی۔ 

سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل میہڑ میں فرید آباد تھانے کی حدود میں واقع گاؤں فیض محمد دریانی چانڈیو میں تین روز قبل آتشزدگی سے تین بھائیوں اور ان کی ایک بہن سمیت نو افراد جھلس کر ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

آگ کئی گھنٹوں تک بجھائی نہیں جاسکی تھی، جس کے نتیجے میں گاؤں کے 100 سے زائد مکان مکمل طور جل گئے جبکہ بھینسوں، گائے اور بکریوں سمیت 150 سے زائد مویشی، گاؤں میں رکھی سینکڑوں من گندم اور ٹریکٹر بھی جل گئے تھے۔ 

سندھ حکومت نے گذشتہ روز مالی امداد دینے، واقعے کی تحقیقات کرانے کے ساتھ متاثرین کو نئے مکان تعمیر کروا کے دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ 

دوسری جانب دادو کے صحافی امداد خشک نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ تین روز گزرنے کے باجود گاؤں کے متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی امداد نہ ہوسکی ہے جبکہ گذشتہ رات سے پاکستانی فوج کے جوانوں نے گاؤں میں پہنچ کر متاثرین کی امداد کا کام شروع کر دیا ہے۔

امداد خشک کے مطابق: ’پاکستانی فوج نے کھلے آسمان تلے بیٹھے گاؤں کے مکینوں کے لیے خیمے لگا دیے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور سحری اور افطار کا بھی بندوبست فوجی جوان کر رہے ہیں۔‘

تاہم وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے گاؤں کے رہائشیوں کی جانب سے امداد نہ کیے جانے کے بیانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ متاثرین کی بھرپور امداد کر رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عبدالرشید چنا کہا: ’یہ گاؤں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سابق انتخابی حلقے میں شامل ہے، ان لوگوں کی مراد علی شاہ کیوں امداد نہیں کریں گے؟ متاثرین کی امداد پہلے دن ہی شروع ہوگئی تھی۔ سندھ حکومت پر تنقید بےجا ہے۔‘

عبدالرشید چنا کے مطابق سندھ حکومت نے آگ سے جھلس کر چل بسنے والوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے، زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ آگ سے تباہ ہونے والے ماکانات بھی سندھ حکومت تعمیر کروا کے دے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آگ لگنے کا نوٹس پہلے دن لیا تھا اور ضلعی حکومت اور ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ متاثرین کے لیے فوری طور پر خیمے، راشن کی بوریاں اور کھانے پینے کی اشیا کی فراہم کی جائیں، جو متاثرین کو پہلے ہی روز مہیا کردی گئیں۔ اس کے علاوہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ نے بھی متاثرین کے لیے کمبل، گدے، مچھر دانیاں اور دیگر امدادی اشیا فراہم کیں۔‘

عبدالرشید چنا کے مطابق: ’ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ گاؤں میں میڈیکل کیمپ بھی لگایا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ضلعی انتظامیہ، پولیس، رینجرز اور ریسکیو ٹیموں کو جائے وقوعہ پر موجود رہنے کی بھی ہدایت کی۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود بھی گذشتہ روز متاثرہ گاؤں گئے تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’وزیراعلیٰ سندھ نے آگ لگنے کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا ہے اور چیف سیکریٹری کی سربراہی میں چھ رکنی جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے۔ سیکرٹری داخلہ سندھ بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی چھ روز میں نقصانات کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرے گی اور اس بات کی بھی تحقیق ہوگی کہ فائر بریگیڈ کیوں دیر سے پہنچیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر سندھ حکومت متاثرین کی مکمل امداد کر رہی تھی تو پاکستانی فوج کو کیوں آنا پڑا؟ اس پر عبدالرشید چنا نے جواب دیا: ’ضلعی انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر دادو نے پاکستانی فوج کو طلب کیا ہوگا کیونکہ فوج کے جوان تربیت یافتہ ہیں اور وہ بہتر طریقے سے امداد کرسکتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے نہ صرف فوج بلکہ رینجرز سے بھی مدد لی ہے۔‘

فیض محمد دریانی چانڈیو میں آتشزدگی کے واقعے کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ گاؤں کے تمام گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے اور مرد، خواتین اور بچے چیخ و پکار کرتے ہوئے مدد کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ویڈیوز میں گاؤں کے رہائشی دعویٰ کرتے نظر آئے تھے کہ 10 گھنٹوں سے زائد وقت گزرنے کے باجود فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ سکیں۔

اس واقعے پر لوگوں نے سندھ حکومت کو سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا۔ سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر علی زیدی نے ٹوئٹ کی کہ ’کیا عزت مآب سپریم کورٹ دادو میں نو افراد کے جھلس جانے کا ازخود نوٹیس لے گی؟ کیا وہ رات کو 12 بجے عدالت کھولیں گے۔ کیا اس بات کا نوٹس لیا جائے گا کہ سندھ میں مسلسل 15 سال سے چلنے والی حکومت میں زندگی بچانے کے لیے فائر بریگیڈ بھی نہیں ہے۔‘

جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی ویرجی کولہی نے پانی کے کولر، چارپائی اور بستروں کی تصاویر کے ساتھ ٹویٹ کی: ’ڈپٹی کمشنر دادو اور پی پی پی کے مقامی رہنما متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین ’بلاول بھٹو نے ہمیں لوگوں کی مدد کرنے والی تصاویر شیئر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگر ہم تصاویر شیئر نہ کریں تو تنقید ہوتی ہے۔ اب کیا کریں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان